اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 جون2025ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور نے کاریک منصوبے میں بے ضابطگیوں پر تحفظات کااظہارکرتے ہوئے ایف آئی اے و نیب کو تحقیقات سونپنے کی ہدایت کی ہے۔سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کا اجلاس پیرکویہاں سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت منعقد ہوا،اجلاس میں کاریک کوریڈور ڈویلپمنٹ انویسٹمنٹ پروگرام – ٹرینچ 3، اور خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کے تعاون سے جاری منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں سینیٹرز سید وقار مہدی، حاجی ہدایت اللہ خان، فلک ناز اور راحت جمالی نے شرکت کی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ کاریک ٹرینچ 3 منصوبہ 330 کلومیٹر طویل راجن پور–ڈیرہ غازی خان–ڈیرہ اسماعیل خان راہداری پر مشتمل ہے،منصوبہ 2020 میں منظور ہوا، لیکن تاحال اس پر عمل درآمد شروع نہیں ہو سکا، منصوبے کی کل لاگت 85 ارب روپے ہے، جس میں راجن پور سے ڈی جی خان تک 121.5 کلومیٹر اور ڈی جی خان سے ڈی آئی خان تک 208.2 کلومیٹر طویل حصے شامل ہیں، جن میں بالترتیب چھ اور پانچ بائی پاس شامل ہیں۔
(جاری ہے)
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ منصوبے کے لیے نیلامی کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے کے لیے مشاورتی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، چیئرمین کمیٹی نے این ایچ اے کو مشاورتی کمپنیوں کی تقرری کا طریقہ کار تفصیلاً کمیٹی کو رپورٹ کی صورت میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔اجلاس میں لاٹ-1 (راجن پور–جام پور سیکشن، 58 کلومیٹر) کی ٹینڈرنگ کے حوالے سے بتایا گیا کہ چھ کمپنیوں نے بولی جمع کرائی، جن میں سے پانچ تکنیکی طور پر اہل قرار پائیں۔
تاہم کمیٹی نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا کہ ایک ایسی کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا جو اس سے قبل ملتان-لودھراں منصوبے (6 ارب روپے مالیت) میں ناکام رہی تھی۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ 172 ارب روپے کا منصوبہ ایسی کمپنی کو کیوں دیا گیا جس کا ماضی ناقص کارکردگی سے بھرا ہوا ہے۔چیئرمین نے این ایچ اے اور گریوینس ریڈریسل کمیٹی کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت دیتے ہوئے معاملہ ایف آئی اے اور نیب کے سپرد کرنے کا حکم دے دیا تاکہ قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
چیئرمین کمیٹی نے این ایچ اے کو دو روز کے اندر کاریک-II اور کاریک-III کے نیلامی تفصیلات سمیت تمام اہل اور نااہل کمپنیوں کی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت جاری کی۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے ڈی آئی خان ریجن میں ایشیائی ترقیاتی بینک سے مالی اعانت یافتہ سڑک منصوبوں کے حوالے سے متعدد شکایات موصول ہونے کا انکشاف کیا اور عالمی بینک و ایشیائی ترقیاتی بینک کے تحت چلنے والے تمام منصوبوں کی مؤثر نگرانی پر زور دیا۔
کمیٹی کوبتایاگیاکہ این ایچ اے بورڈ نے 6 جنوری 2023 کو اپنے اجلاس میں مذکورہ کمپنی کو نااہل قرار دیا تھا، جبکہ اس کے خلاف معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ 23 دسمبر 2022 کو ہو چکا تھا۔ کمیٹی نے تشویش ظاہر کی کہ یہ کمپنی کاریک-II منصوبے پر محض 8 فیصد کام کر پائی تھی، پھر بھی اسے 172 ارب روپے کے نئے منصوبے کے لیے کیسے اہل قرار دیا گیا۔اجلاس میں اقتصادی امور ڈویژن اور اس کے ذیلی اداروں، بشمول پاور ڈویژن و نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے منصوبوں سے متعلق سابق سفارشات پر عملدرآمد کا بھی جائزہ لیا گیا۔
تفصیلی غور و خوض کے بعد کمیٹی نے پاور ڈویژن کو ہدایت کی کہ بنٹنگ کنڈکٹر اے سی ایس آرلاٹ ٹواے کا ٹھیکہ تیسرے سب سے کم بولی دینے والے کو دینے پر ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔کمیٹی نے مزید ہدایت دی کہ پاور ڈویژن تین رکنی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ بھی فراہم کرے جس کی سربراہی سابق نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی کر رہے تھے۔
ساتھ ہی پاور ڈویژن کو وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے توانائی کو خط لکھنے اور اس کی کاپی کمیٹی کے ساتھ شیئر کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔ انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈکی جانب سے جاری کردہ جعلی خطوط کے معاملے پر بھی ایف آئی اے اور نیب کو خط لکھنے کی ہدایت کی گئی۔خیبرپختونخوا میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی شراکت داروں کے تعاون سے جاری منصوبوں پر بھی سپیشل سیکرٹری اقتصادی امور نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔
بتایا گیا کہ موافق زرِ مبادلہ کی شرحوں کے باعث صوبے کو اضافی فنڈز موصول ہوئے ہیں جو جاری منصوبوں کی لاگت میں اضافہ کے ازالے میں معاون ہوں گے۔سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں کئی منصوبے متعلقہ محکموں کی نااہلی کے باعث تاخیر کا شکار ہیں اس پر صوبائی نمائندوں نے بتایا کہ اکثر منصوبے تکمیل کے قریب ہیں مگر مزید فنڈز اور وقت درکار ہے۔
اجلاس میں بالاکوٹ، پشاور، ہزارہ اور ملاکنڈ کے ترقیاتی منصوبوں پر پیشرفت کی تفصیلات بھی فراہم کی گئیں۔کمیٹی کوبتایاگیا کہ جرمن مالی امداد سے چلنے والے منصوبوں میں اراضی کے حصول میں تاخیر کے باعث پانچ ماہ کی تاخیرہوئی ہے۔محکمہ جنگلات خیبرپختونخوا نے کمیٹی کو بلین ٹری پلانٹیشن پروگرام سے متعلق بریفنگ دی، جو کہ جرمن حکومت کے تعاون سے پشاور، ہزارہ اور ملاکنڈ کے دیہی علاقوں میں جاری ہے۔
انہوں نے دور دراز علاقوں میں پودوں کے تحفظ اور نگرانی کے لیے مؤثر مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی ضرورت پر زور دیا۔ مزید بتایا گیا کہ سعودی حکومت کے تعاون سے سوات میں متعدد انفراسٹرکچر اور صحت کے منصوبے، جن میں سڑکیں، اسکول، اسپتال اور تھیلیسیمیا سینٹر شامل ہیں، کامیابی سے مکمل کیے جا چکے ہیں۔خیبرپختونخوا میں سڑکوں کے نئے منصوبوں سے متعلق چیئرمین کمیٹی نے کاریک تھری کے لاٹ 4 (طبی قیصرانی تا ڈی آئی خان، 96.245 کلومیٹر) کی دوبارہ جانچ پڑتال کی سفارش کی اور بدعنوانیوں کے باعث اس کا ٹھیکہ روکنے کی ہدایت کی۔
مزید برآں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران شروع کیے گئے تمام منصوبوں کی تفصیلی رپورٹ مانگی گئی جس میں شامل تمام اہل اور نااہل کمپنیوں کے نام درج ہوں۔کمیٹی نے بعض پراجیکٹ ڈائریکٹرز کی جانب سے مبینہ رشوت طلب کرنے کی شکایات پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور فوری تادیبی کارروائی کی سفارش کی۔ اجلاس کے اختتام پر کمیٹی نے قبل ازیں جاری کردہ ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام کو فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانے کی سختی سے ہدایت جاری کی۔