سپریم کورٹ ، اسلام آباد ہائی کورٹ ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر کیس میں وکلاء کے دلائل مکمل ، سماعت 18جون تک ملتوی

منگل 17 جون 2025 20:52

سپریم کورٹ ، اسلام آباد ہائی کورٹ ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر کیس میں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جون2025ء)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر کیس میں وکیل حامد خان اور فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کرلیے جس کے باعث سماعت بدھ 18جون تک ملتوی کردی گئی۔بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف آئندہ سماعت پر دلائل کا آغاز کریں گے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ججز کے تبادلے کیلئے ایڈوائس کابینہ کر سکتی ہے۔انہوں نے مصطفی ایمپکس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔

(جاری ہے)

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے آرٹیکل 48 کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں وزیر اعظم کا لفظ بھی موجود ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا مصطفی ایمپکس فیصلے سے آرٹیکل 48 میں وزیر اعظم کا لفظ غیر مؤثر ہو گیا ہے۔

جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں کسی غیر قانونی نقطے کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز اور درخواست گزاروں نے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ہی چیلنج کیا ہے، تو پھر ججز اور ان کے وکلائ کو فیصلے میں غیر قانونی پہلوؤں کی نشاندہی کرنی چاہیے تھی۔ایڈووکیٹ حامد خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب الجواب دلائل کا آغاز کیا۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 200 کی دو ذیلی شقیں ایک اور دو کا تعلق ٹرانسفر سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تین سابق چیف جسٹسز، وزیراعظم اور صدر اس کیس میں انوالو ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اس معاملے پر خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ فیصل صدیقی نے اٹارنی جنرل کے مؤقف کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر تبادلہ عارضی ہو تو سب آرٹیکل دو کا اطلاق ہوتا ہے تاہم، اگر ٹرانسفر مستقل ہو تو سب آرٹیکل ایک کا تعلق دو سے نہیں ہوتا۔

انہوں نے واضح کیا کہ تقرری کا طریقہ کار تب مکمل ہوتا ہے جب تک سمری پر دستخط نہ ہوں، تب تک تقرری نہیں مانی جاتی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 194 کے الفاظ اس کیس کی کنجی ہیں۔ انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ٹرانسفر پر جج کو نیا حلف لینا پڑے گا۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ نئے حلف پر پچھلی سروس کا کیا ہوگا جج نیا حلف لینے پر جونیئر جج ہو جائے گا فیصل صدیقی نے اس پر کہا کہ چونکہ تبادلہ عارضی ہوتا ہے، اس لیے حلف لینے سے پچھلی سروس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ جج جب واپس جائے گا تو وہ اپنی اصل سنیارٹی پر واپس جائے گا۔ جج کا تبادلہ نئی تقرری نہیں ہے اور نہ ہی وہ مستقل ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدارتی آرڈر کے مطابق تبادلہ صرف عارضی ہو سکتا ہے، مستقل نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تبادلے کے پراسس پر کوئی بات نہیں کی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس کے روبرو ججز صرف سنیارٹی کے بارے میں بات کر سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ سنیارٹی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے فکس کی تھی، جس سے ججز متاثر ہوئے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا اگر ججز کی ریپریزنٹیشن منظور ہو جاتی تو کیا آپ پٹیشن دائر کرتی فیصل صدیقی نے جواب دیا بالکل، ہم تبادلہ کے خلاف پٹیشن دائر کرتے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ متاثرہ فریق تو ججز ہیں اور عدالتی کارروائی کے آغاز میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ مرکزی کیس متاثرہ ججز کا ہے۔

ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے تبادلہ پر آنے والے ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ قرار دے دیا تھا۔ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کہنے پر افسوس کیا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ کراچی بار کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے جواب الجواب دلائل مکمل کر لیے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف بدھ سے جواب الجواب دلائل کا آغاز کریں گے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی بدھ کو سننے کا فیصلہ کیا۔ وکیل منیر اے ملک نے کہا ہم ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو الگ سے جواب دیں گے۔