ججز کو ترقی یا ذاتی فائدے کیلئے طاقتوروں کی نہیں بلکہ آئین کی زبان بولنی چاہیئے، جسٹس منصور

تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جو آئینی ذمہ داری چھوڑ دیتے ہیں، یہ انہیں انصاف فراہم کرنے والوں کے طور پر نہیں بلکہ ناانصافی کے ساتھی کے طور پر یاد رکھے گا؛ سینئر جج سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ

Sajid Ali ساجد علی بدھ 18 جون 2025 12:52

ججز کو ترقی یا ذاتی فائدے کیلئے طاقتوروں کی نہیں بلکہ آئین کی زبان بولنی ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 جون 2025ء ) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ ججوں کو چھوٹےاور قلیل مدتی فوائد کے لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیئے، ججز کو ترقی یا ذاتی فائدے کیلئے طاقتوروں کی نہیں بلکہ آئین کی زبان بولنی چاہیئے کیوں کہ ایسے فوائد عارضی ہوتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس شاہ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی طرف سے دائر درخواست کو مسترد کر دیا جس میں اسسٹنٹ پروفیسر آبسٹیٹرکس اینڈ گائناکالوجی کے عہدے پر ایک خاتون سرکاری ملازم کی تقرری مسترد کردی گئی کیوں کہ انہوں نے شادی کے بعد اپنا ڈومیسائل تبدیل کرلیا تھا۔

جسٹس سید منصور علی شاہ کے تحریر کردہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی کی طرف سے توثیق کردہ 15 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بنیادی حقوق حتمی محافظ ہے، سپریم کورٹ کے ججوں کو دیانتداری اور جرأت کے ساتھ کام کرنا ہے، ان تمام بیرونی یا اندرونی رکاوٹوں سے مقابلہ کرنا ہے جو عدلیہ کی خود مختاری کو ختم کرنے یا قانون کی حکمرانی کو پامال کرنے کا خطرہ ہیں۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے سینئر جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ججوں کو چھوٹے، قلیل مدتی فوائد کے لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیئے خواہ وہ ترقی، طاقت یا ذاتی راحت کا باعث ہوں جو آئین کی بجائے طاقتوروں کی زبان بولنے سے حاصل ہو سکتے ہیں کیوں کہ ایسے فوائد فریب اور عارضی ہوتے ہیں، جج کا اصل اجر ادارے کے وقار اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں ہے، اس عدالت کے ججوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اخلاقی وضاحت اور ادارہ جاتی جرأت کے ساتھ اپنی صفوں میں سے ان لوگوں کو پکاریں جو آئینی اصولوں کی قیمت پر دن کی طاقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اندر سے تنقید آئین کی وفاداری کی جڑیں ہیں، یہ بے وفائی نہیں ہے، یہ عدالتی ادارے کی خدمت کی اعلیٰ ترین شکل ہے، تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار میں رہنے والوں کو یاد نہیں رکھا جاتا بلکہ اصولوں کے دفاع میں ثابت قدم رہنے والوں کو دنیا یاد رکھتی ہے، عدالتوں کو کبھی بھی مصلحت کا آلہ نہیں بننا چاہیئے بلکہ انہیں آئینی اخلاقیات اور جمہوری سالمیت کے محافظ ہونا چاہیئے، تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جو اپنی آئینی ذمہ داری چھوڑ دیتے ہیں، یہ انہیں انصاف فراہم کرنے والوں کے طور پر نہیں بلکہ ناانصافی کے ساتھی کے طور پر یاد رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ تنازعات کو حل کرنے کا فورم نہیں ہے یہ قوم کا آئینی ضمیر ہے جسے ترقی پسند اور اصولی فقہ تیار کرنے کا کام سونپا گیا ہے جو آئین میں جان ڈالتا ہے، قانون اور لوگوں کی زندہ حقیقتوں کے درمیان فاصلے کو ختم کرتا ہے، عدالت کو معاشرے کی ابھرتی ہوئی امنگوں کے مطابق زندہ رہنا چاہیئے اور انصاف کو آگے بڑھانے کے لیے نئے علاج ایجاد کرنا چاہیئے۔