غزہ: امداد کی ترسیل کے تمام سرحدی راستے کھولنا ضروری، یو این

یو این جمعہ 17 اکتوبر 2025 01:45

غزہ: امداد کی ترسیل کے تمام سرحدی راستے کھولنا ضروری، یو این

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ نے غزہ میں جنگ سے تباہ حال لوگوں کو بڑے پیمانے پر انسانی امداد پہنچانے کے لیے تمام سرحدی راستوں کو کھولنے پر زور دیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی امدادی اداروں کو علاقے میں تاحال رسائی اور امداد بھیجنے کی اجازت نہیں مل سکی۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں مصر کے ساتھ رفح کے سرحدی راستے کو کھولنا ضروری ہے۔

اس طرح انسانی امداد کو کم وقت میں غزہ کے اندر پہنچانا ممکن ہو گا جو فی الوقت طویل فاصلہ طے کر کے اسرائیل کے ساتھ کیریم شالوم کے راستے سے لانا پڑتی ہے۔

Tweet URL

'اوچا' کے سربراہ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ امدادی ٹیمیں جنگ بندی کے بعد لوگوں کو بڑے پیمانے پر ضروری مدد پہنچانے کی غرض سے تیار تھیں تاہم اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہیں علاقے میں خاطرخواہ رسائی درکار ہے۔

(جاری ہے)

امدادی شراکت داروں کو ویزوں کے اجرا کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی غیرسرکاری اداروں اور تنطیموں کی موجودگی اور شمولیت کے بغیر اس قدر بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

اقوام متحدہ کے امدادی اقدامات

غزہ میں موجود امدادی ٹیمیں جنگ بندی کے دوران دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مدد پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

منگل کو اقوام متحدہ کے 21 امدادی شراکت داروں نے تقریباً 9 لاکھ 60 ہزار کھانے تقسیم کیے۔ علاوہ ازیں، ادارے کی معاونت سے چلنے تنوروں نے روٹی کے ایک لاکھ سے زیادہ پیکٹ تیار کیے۔

اقوامِ متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے بتایا ہے کہ ادارے کی جانب سے غزہ کی جانب کھلے سرحدی راستوں پر مزید امدادی سامان بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

یہ سامان اردن، قبرص، اسرائیل، اور مغربی کنارے میں موجود ہے اور اسے کسی بھی وقت غزہ روانہ کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ جمعہ اور منگل کو اقوام متحدہ کی ٹیموں اور ان کے شراکت داروں نے 'طریقہ کار 2770' کے تحت گندم کا آٹا، خوراک کے پیکٹ، غذائیت کا سامان، کھجوریں، باورچی خانوں کے لیے درکار سامان، حفظان صحت کی اشیا، سینیٹری پیڈ اور جانوروں کا چارہ بھی غزہ میں بھجوایا ہے۔

یونیسف اور ڈبلیو ایچ او کی سرگرمیاں

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بچوں کے لیے 10 لاکھ سے زیادہ ڈائپر تقسیم کیے جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دیر البلح میں اپنے گوداموں سے جراحی کے سامان اور طبی مقاصد کے لیے درکار دیگر اشیا کے تین ٹرک غزہ شہر میں پہنچائے ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ یہ طبی امداد الشفا ہسپتال میں منتقل کی جائے گی جس سے تقریباً 10 ہزار افراد کی ضروریات پوری ہوں گے۔

ادارے نے غزہ میں ہڈیوں کے علاج اور شدید زخمیوں کے لیے ایک بین الاقوامی ایمرجنسی میڈیکل ٹیم بھی تعینات کی ہے اور دو نئے آپریشن روم قائم کیے ہیں۔ علاوہ ازیں، الشفا ہسپتال میں 120 نئے بستروں کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ وہاں کی طبی استعداد کو بڑھایا جا سکے۔

راستے کھولنے کی کوششیں

'اوچا' نے اطلاع دی ہے کہ اقوام متحدہ کی ٹیموں نے شمالی غزہ کے اہم علاقوں میں اور مرکزی شاہراہوں سے رکاوٹیں ہٹا دی ہیں تاکہ ان علاقوں میں بروقت امداد پہنچائی جا سکے جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

یہ ٹیمیں کئی ماہ سے بند پڑی شاہراہ صلاح الدین کو فعال بنانے کا جائزہ بھی لے رہی ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ علاقے میں واپس آنے والوں کی بنیادی امدادی ترجیحات میں صاف پانی تک رسائی، خوراک، پناہ گاہ اور ملبہ ہٹانے کی سہولیات شامل ہیں۔ جن لوگوں کے گھر اب بھی کسی حد تک قابل رہائش ہیں وہ صفائی اور ملبہ ہٹانے کا کام خود شروع کر چکے ہیں اور جن کے گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں وہ خیموں میں مقیم ہیں۔

© UNRWA

'انروا' کو کام کی اجازت دینے کا مطالبہ

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے عدنان ابو حسنہ نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ ادارے کے پاس امداد کی تقسیم کا بے مثال نظام موجود ہے لہٰذا اسے امدادی کوششوں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے 'انروا' کو امدادی کام کی اجازت نہ دی تو غزہ کے لوگوں کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔ ادارے کے پاس فلسطینیوں کے لیے کروڑوں ڈالر مالیت کی امداد موجود ہے جسے علاقے میں لانے کی اجازت نہ دینے کا کوئی جواز نہیں۔ اس وقت غزہ میں 'انروا' کے تقریباً 12 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں آٹھ ہزار اساتذہ بھی شامل ہیں جو علاقے میں چھ لاکھ 40 ہزار طلبہ کی تعلیم بحال کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ ادارے نے جنگ کے دوران صرف نفسیاتی مدد کے شعبے میں ہی آٹھ لاکھ سے زیادہ مشاورتیں مہیا کی ہیں۔ دو سال میں ادارے کی 90 فیصد تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں اور 370 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ تمام تر مسائل کے باوجود ادارے کے پاس غزہ میں امدادی سرگرمیوں کی مکمل صلاحیت موجود ہے لیکن اسے خوراک تقسیم کرنےکی اجازت نہیں دی جا رہی۔