معیاری تحقیق یا 'پی ایچ ڈیز‘ کا جمعہ بازار

DW ڈی ڈبلیو بدھ 18 جون 2025 19:40

معیاری تحقیق یا 'پی ایچ ڈیز‘ کا جمعہ بازار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جون 2025ء) اکیڈیمکس میں تو آپ کی لاٹری کھل جائے گی!

وہاں ایک دوسرے شخص نے مرکز نگاہ شخص کو حسد اور رشک کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہا۔ ہم نے جب یہ منظر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ پاکستان میں شاید خواندگی اور شرح تعلیم تو ضرور بڑھ رہی ہے لیکن دراصل یہ اکثر صرف ڈگری یافتہ لوگوں کا تناسب ہی بن چکا ہے ورنہ کیا پی ایچ ڈی جیسی گراں قدر ڈگری کے حوالے سے ایسے سوال و جواب کا کوئی تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟

یقیناً نہیں۔

! لیکن سوچیے تو اس میں قصور تو ہمارے نظام تعلیم کا بھی ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس تو آج کی بات ہے، ہم نے پہلے ہی پی ایچ ڈی کے جعلی مقالوں اور سرقہ نویسی کی کیسی کیسی کہانیاں نہیں سنیں۔ ایک بڑی سرکاری یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ میں ایک پروفیسر نے اپنے ہی شعبے کے ایک ہم عصر پروفیسر کا مقالہ نقل کر ڈالا تھا اور یہ معاملہ بہت عرصے تک خبروں کی زینت بھی رہا، متعلقہ پروفیسر کو نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے سے بھی روک دیا گیا تھا، لیکن پھر اتنی خوبصورتی سے یہ معاملہ داخل دفتر ہوا کہ جیسے کبھی کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، کیوں کہ دونوں پروفیسرز ایک ہی لابی سے تعلق رکھتے تھے، ورنہ یونیورسٹی کی سطح پر ایسی فاش غلطی کرنے والوں کے ساتھ تو سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہیے تھی!

جیسے ہمارے ہاں تعلیم کا عام مقصد ہی اچھی سے اچھی نوکری کا حصول ہے، بالکل ایسے ہی ڈاکٹریٹ کا معاملہ بھی ہے، جس میں بہت کم ہی ایسے امیدوار ہوتے ہوں گے کہ جو دل سے کوئی تحقیق کرتے ہوں گے۔

(جاری ہے)

جو یہ سوچتے ہوں گے کہ واقعی وہ پڑھنا اور اپنے سماج کو کچھ دینا چاہتے ہیں۔ انہیں تحقیق اور دریافتوں میں دلچسپی ہے۔ ورنہ آپ دیکھ لیجیے کہ اکثر اپنے ناموں کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگائے افراد مختلف سرکاری اور نجی جامعات میں کسی نہ کسی اہم ذمہ داری پر فائز ہوں گے اور پھر اسی پی ایچ ڈی کی بنیاد پر تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہوں گے، کیوں کہ شاید ہمارے ہاں پی ایچ ڈی جیسی اہم ڈگری کا مقصد فقط معاشی آسودگی کا حصول ہی رہ گیا ہے۔

جب بنیاد ہی میں تحقیق اور کھوج کے بجائے مکمل طور پر مادیت پرستی ہو تو پھر پی ایچ ڈی کے موضوعات سے لے کر ان کے مندرجات تک کا جو حشر نشر ہو سکتا ہے، وہی سب آج ہو رہا ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے مصداق ہمارے معاشرے میں مبینہ طور پر ایسے طلبہ موجود ہیں جو با معاوضہ پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ کر دے دیتے ہیں۔ اب جہاں امتحانی مراکز میں جعلی امیدوار داخل کرا دیے جانے کے واقعات ہوں وہاں کیسے یقین کیا جا سکتا ہے کہ پی ایچ ڈی کی ساری تحقیق واقعی متعلقہ امید وار ہی نے کی ہے۔

اس کی پرکھ کے لیے آخر میں ایک زبانی امتحان وائیوا کی صورت ہی میں باقی رہ جاتا ہے۔ اس میں بھی من پسند ممتحن کا تقرر ہو جانا کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے، جو ہنستے کھیلتے یہ مرحلہ طے کرا دیتا ہے۔

دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم کی بنیاد ان جامعات میں ہونے والی تحقیق پر استوار ہوتی ہے۔ کرنے کو ایچ ای سی نے مختلف اسامیوں کے لیے ڈاکٹریٹ کی شرط تو عائد کر دی ہے، لیکن یہ اس تحقیق کے معیار اور بلندی کو برقرار رکھنے میں کچھ زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔

آپ کسی بھی یونیورسٹی میں چلے جائیے اور وہاں کے کتب خانوں میں پی ایچ ڈی کے مقالوں کا حال دیکھ لیجیے، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مضبوط سیاہ جلدوں میں مقید ضخیم نسخے فقط کالی کی جانے والی امتحانی کاپی سے زیادہ اہم نہیں، جس کے نتیجے میں فقط امتحان میں اعلیٰ مدارج ہی طے کرنا ہوتے ہیں۔

کرنے کو ایچ ای سی نے پی ایچ ڈی کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں، جس کے تحت اب باقاعدہ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے پروگراموں میں محدود نشستوں پر ہی داخلے دیے جاتے ہیں، جس کے لیے ماسٹرز کی قابلیت رکھنے والے طلبہ بھاری فیس بھی ادا کرتے ہیں، باقاعدہ کلاسز بھی لیتے ہیں اور اسائنمنٹ بھی کرتے ہیں اور پھر امتحانات کے بعد یہ طے ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹریٹ یا ایم فل کی تحقیق کرنے کے اہل ہیں یا نہیں۔

اس کے باوجود بھی تحقیقی مقالوں کے موضوعات سے لے کر ان کے متن اور مندرجات تک مکھی پر مکھی مارنے جیسی مشق ہی دکھائی دیتی ہے۔ سب سے پہلے تو موضوعات کے حوالے سے ہی امیدوار اور ان کے نگران تحقیق ہی نہیں کرتے۔ متعلقہ موضوع پر ہونے والی تحقیق اور اس موضوع کی ضرورت اور اہمیت، وہ بنیادی کلیدیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر کوئی بھی تحقیقی خاکہ منظور کیا جاتا ہے، لیکن افسوس ہمارے ہاں تینوں ہی بنیادوں کو نظر انداز کر کے صرف آسان اور میسر مواد اور طریقے کی طرف رغبت کی جاتی ہے، جس کے بعد پھر چل سو چل۔

اب آپ اسے عام نوٹس کہیے یا کوئی تحقیقی کاوش۔۔۔ یہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔

موضوع اور طریقہ تحقیق کے بعد، تحقیق کا معیار اور اصول دوسرا بڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ تحقیقی اخلاقیات ہوتی ہیں کہ آپ جو کچھ اپنے مقالے میں لکھیں گے اس کے لیے کوئی نہ کوئی حوالہ دیں گے، کوئی نہ کوئی جواز دیں گے، لیکن پی ایچ ڈی محقق کو لگتا ہے کہ اگر اس نے کہیں حوالے دے دیے تو لوگ سمجھیں گے کہ اس نے تو نقل کی ہے اور ہمارے نظام میں اس کی یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں ہوتی کیوں کہ ڈاکٹریٹ کا مقالہ جمع ہونے سے پہلے اس کی باقاعدہ سائنسی جانچ ہوتی ہے کہ اس میں کتنے فی صد مواد محقق نے خود لکھا ہے اور کتنا مواد اخذ شدہ ہے۔

یہ لکیر کا فقیر سسٹم ہی آن لائن جائزہ لے کر بتا دیتا ہے کہ تھیسز میں کتنے فی صد مواد ادھر ادھر سے لیا گیا ہے اور کتنا خود سے لکھا۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ تحقیق میں یقینی طور پر آپ دوسری تحقیقی مقالوں اور مضامین سے مدد لیتے ہیں اور بطور محقق یہ بات اچھی سمجھی جاتی ہے کہ آپ واوین کا خیال رکھیں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ یہ آپ نے نہیں لکھا، بلکہ فلاں محقق نے بالکل یہی کہا ہے یا تحقیق کی ہے لیکن یہ سسٹم اس سقم کے ساتھ ہی موجود ہے۔

نتیجتاً نگران تحقیق یا سپروائزر پی ایچ ڈی کرنے والوں کو کہتے ہیں کہ اس سسٹم کی 20 فی صد اخذ شدہ کی حد سے بچنے کے لیے واوین کے بجائے اپنے الفاظ میں مفہوم لکھو تا کہ سسٹم کی اسکیننگ میں کم سے کم اخذ شدہ مواد سامنے آئے ورنہ مقالہ جمع ہی نہیں ہو گا۔

ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں ماسٹرز کرنے والوں کا تناسب بہ مشکل دو فی صد ہے، اب ان میں سے پی ایچ ڈی کرنے والے کتنے ہوتے ہیں، آپ اندازہ لگا لیجیے۔

اگرچہ ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن معیار پست ہو رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایچ ای سی ڈاکٹریٹ کرنے والے امیدواروں کے مقالہ جات کی کڑی جانچ کے بعد ہی تعلیمی اداروں میں ان کی مراعات کا فیصلہ کرتا یا پھر تحقیق کے موضوعات اور معیار کی منظوری کے حوالے سے کوئی مناسب بند و بست کرتا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹریٹ کے مقالوں سے ملک اور سماج کے مختلف مسائل کے حل میں مدد کا کوئی طریقہ کار وضع ہوتا، تا کہ پتا چلتا کہ اس تحقیق سے امیدوار کی ترقی کے راستے کھلنے کے علاوہ عام فائدہ کیا ہوا؟ اگر اس سمت توجہ نہیں دی گئی تو ہمارے مقالہ جات لائبریریوں کی الماریوں میں بند ہو کر دیمک کی غذا بنتے رہیں گے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔