Live Updates

مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ

یو این بدھ 18 جون 2025 22:00

مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جون 2025ء) گزشتہ سال جنگوں میں انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں سمیت 48,384 شہریوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ مسلح تنازعات میں بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ 2023 اور 2024 کے درمیانی عرصہ میں جنگوں کے دوران 21,480 خواتین اور 16,690 بچے ہلاک ہوئے۔

ان میں 70 فیصد خواتین اور 80 فیصد بچوں کی ہلاکتیں غزہ میں ہوئیں۔

Tweet URL

گزشتہ سال مسلح تنازعات میں انسانی حقوق کے 502 محافظ ہلاک اور 123 لاپتہ ہوئے۔

(جاری ہے)

ایسے بیشتر واقعات جن ممالک میں پیش آئے ان میں زیادہ تر مغربی ایشیا، شمالی افریقہ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں لاطینی امریکہ اور غرب الہند کے ممالک میں ہوئیں اور بیشتر متاثرین کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔

ہلاک ہونے والوں میں خواتین کی تعداد 10 فیصد تھی تاہم انسانی حقوق کے لاپتہ ہونے والے کارکنوں میں ان کا تناسب 20 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔

لاطینی امریکہ، غرب الہند، یورپ اور شمالی امریکہ میں ایسے واقعات کی تعداد دیگر خطوں کے مقابلے میں زیادہ رہی۔گزشتہ سال 82 صحافی ہلاک ہوئے جبکہ 2023 میں ان کی تعداد 74 فیصد تھی۔ ایسی بیشتر ہلاکتیں ایسے علاقوں میں ہوئیں جہاں مسلح تنازعات جاری ہیں۔

بڑھتی ہوئی تفریق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ ایسے تمام اعدادوشمار کے پیچھے دردناک داستانیں ہیں۔

ان سے زمانہ امن و جنگ میں کمزور ترین لوگوں کو تحفظ کی فراہمی میں ناکامی کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر میں حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔

'او ایچ سی ایچ آر' کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک یا تفریق کی صورتحال میں بھی مزید بگاڑ آیا ہے اور ایسے لوگ اس مسئلے سے کہیں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جو پہلے ہی پسماندہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جسمانی معذوری کا شکار تقریباً ایک تہائی (28 فیصد) لوگوں نے بتایا ہے کہ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا ہو چکا ہے جبکہ جسمانی طور پر صحت مند افراد میں یہ شرح 17 فیصد ہے۔ صنفی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنے والے خواتین کی تعداد مردوں سے دو گنا زیادہ ہے۔ تفریق غریب ترین گھرانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی اور غربت و نابرابری کے سلسلے کو دوام دیتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 15 تا 29 سال عمر کے لوگوں نے بتایا کہ انہیں اپنی مہاجرت، نسل، مذہب اور جنسی میلان کی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 60 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سے عمر، معذوری اور طبی صورتحال کی بنا پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

حقوق کے درست جائزے کا اہتمام

مضبوط اداروں اور معلومات کے حصول کا بہتر انتظام دستیاب ہونے کے نتیجے میں اب انسانی حقوق کے غیرجانبدار قومی ادارے (این ایچ آر آئی) دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی میں حقوق کی صورتحال کے بارے میں درست اطلاعات مہیا کرنے کے قابل ہیں۔

اس طرح اب 119 ممالک میں تفریق کے حوالے سے معلومات سامنے آئی ہیں جبکہ 2015 میں یہ تعداد 15 تھی۔ 32 فیصد 'این ایچ آر آئی' انسانی حقوق کے محافظوں پر حملوں کے حوالے سے معلومات جمع کر رہے ہیں۔

وولکر ترک نے کہا ہے کہ امتیاز یا تفریق کوئی الگ واقعہ نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کی تفریق کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جسمانی معذور افراد ناصرف اپنی معذوری کی بنا پر امتیازی سلوک کا سامان کرتے ہیں بلکہ انہیں دیگر وجوہات کی بنا پر بھی تفریق کا نشانہ بنائے جانے کا امکان ہوتا ہے۔

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات