ورلڈ ریفیوجی ڈے: افغان پناہ گزینوں کی صورتحال

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 20 جون 2025 15:00

ورلڈ ریفیوجی ڈے: افغان پناہ گزینوں کی صورتحال

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء)
ہر سال کی طرح اس بار بھی 20 جون کو ورلڈ ریفیوجی ڈے منایا جا رہا ہے۔ اس سال اس دن کا موٹو ہے ’’ریفیوجیز کے ساتھ یکجہتی۔‘‘

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں چاردہائیوں سے لاکھوں کی تعدادمیں افغان پناہ گزین رہائش پذیرہیں لیکن دونوں ممالک کے مابین کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اب پاکستان بغیردستاویزات کے ملک میں رہائش پذیر افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیج رہا ہے۔

پاکستان میں رہائش پذیر 70 فیصد افغان پناہ گزین انتہائی کسمپریسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

اکتوبر2023 ء سے پاکستان کےغیرقانونی طور یہاں مقیم غیرملکیوں کو نکالنے کے فیصلے سے یہاں رہائش پذیرلاکھوں افغان پناہ گزینوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔

(جاری ہے)

وفاق اورخیبرپختونخوا کے مابین پالیسی اختلاف کی وجہ سے خیبر پختونخوامیں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی شروع نہ ہوسکی۔

پاکستان کے دیگرشہروں سے افغان باشندوں کو گرفتارکر کے انہیں خیبرپختونخوا کے راستے سے افغانستان واپس بیجھا جارہاہے جبکہ اب غیرقانونی افغان پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ 30 جون کے بعد دستاویزات رکھنے والے افغانوں کوبھی ملک بدر کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک دس لاکھ افغان پناہ گزینوں کودیگرصوبوں سے لاکرطورخم اوردیگرسرحدی گذرگاہوں کے راستے افغانستان روانہ کر دیا گیا ہے لیکن خیبرپختونخوا میں افغان پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی شروع نہ ہوسکی ۔

یوں دیگرصوبوں میں آپریشن اورزبردستی پاکستان سے نکالےجانے سے بچنے کے لیے بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں نے پختونخوا کے مختلف شہری اوردیہی علاقوں میں رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی۔

پشاورکے ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صرف پشاور میں اس مختصرعرصے میں ایک لاکھ سے زیادہ افغان پہنچ گئے ہیں ان میں وہ افغان بھی شامل ہیں جو ملک بدری کے بعد دیگر راستوں سے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ ایسے افغان ملک کے دیگر حصوں میں کاروبار کررہے تھے اور انہیں گرفتار کرکے ڈی پورٹ کیا گیا تھا لیکن یہ لوگ اپنے کاروباری شراکت داروں سے اپنی رقم لینے کے لیے مجبوراً یہاں قیام کررہے ہیں۔‘‘

خیبرپختونخواحکومت کاموقف

صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت نے افغان پناہ گزینوں کونکالنے کے لیے ہم سے مشاورت نہیں کی تھی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپورکے مشیر برائے اطلاعات وتعلقات عامہ بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا، ''صوبائی حکومت نے واضح طورانتظامیہ کوہدایت کی ہے کہ کسی افغان کو جانے پرمجبورنہ کیا جائے۔

جن کے پاس دستاویزات موجود ہیں وہ یہاں رہ سکتے ہیں اور اگر کوئی افغان باقاعدہ دستاویزات لیکرواپس پختونخوا آتا ہے توہم انہیں نہیں روکیں گے ۔ ہم وفاق کی افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘ بیرسٹرسیف نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت نے کئی بار وفاقی حکومت سے بات میں شامل کرنے کے لیے کہا اورباقاعدہ طور پر بھی ایک خط لکھا لیکن ان کی تجاویزپر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

‘‘

افغان پناہ گزینوں کی انتہائی مشکل صورتحال

خیبرپختونخوا میں رہائش پذیرافغان پناہ گزینوں کی اکثریت انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذاررہی ہے۔ زیادہ ترافغان یومیہ اجرت پرمزدوری کرتے ہیں صوبے میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے کنسٹرکشن یا تجارتی گوداموں اورمنڈیوں میں کام کرتے ہیں۔ وفاق کی جانب سے مہاجرین کی بے دخلی کے بعد وہ غیر یقینی صورتحال اورذہنی اذیت سے دوچار ہیں ان میں زیادہ تر اپنے کم سن بچوں اور بچیوں کو بھی کام پر لگائے ہوئے ہیں۔

پاکستانی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہوگئے۔ ایک بڑی تعداد میں ٹرانسجنڈر، فنکار اور صحافی اب بھی تیسرے ملک میں پناہ لینے کے منتظرہیں۔ پشاور میں درجنوں نجی افغان تعلیمی ادارے، فلاحی ادارے اور کاروباری مراکز بند کئے گئے جبکہ کاروباری طبقے کواپنا کاروبارسمیٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پشاورکینٹ کے تاجراتحاد کے صوبائی صدرمجیب الرحمان نے ڈٰی ڈبلیوکو بتایا، ''افغان مہاجرین میں بعض نے یہاں بھاری سرمایہ کاری کی ہے لیکن پاکستانیوں کے مقابلے میں یہ کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان غیرملکی سرمایہ کاروں کو لانے کے لیے سرتوڑکوشش کررہا ہے لیکن بدامنی کی وجہ سے کوئی یہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیارنہیں۔ ایسے میں پاکستان کو انافغان پناہ گزینوں کو سہولیات فراہم کرناچاہیے جو یہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا، ''پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے افغان سرمایہ دار مڈل ایسٹ، بنگلہ دیش اورترکی منتقل ہوگئے جہاں ان ممالک نے انہیں ایک خطیررقم کی سرمایہ کاری پرمراعات دینے کا اعلان کیا، لیکن پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا۔

‘‘

خیبرپختونخوا میں رہائش پذیرافغان پناہ گزینوں میں بعض نے جعلی پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنائے ہیں جس کے زریعے وہ سرکاری محکموں میں بھرتی ہوئے۔ صوبائی حکومت نے حال ہی میں ایسے افغان باشندوں کے خلاف تحقیقات شروع کی ہیں۔ اس دوران میٹروپولیٹن سمیت پولیس اوردیگرمحکموں میں بھی مشکوک اہلکاروں کے بارے میں تحقیقات شروع کی گئیں۔

تحقیقاتی اداروں نے ایسے 14 اہلکاروں کی نشاندہی کی جوسرکاری محکموں میں بھرتی ہوئے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں کےمطابق ان کے قریبی رشتہ دارافغان نیشنلٹی پربیرون ملک سیاسی پناہ لے چکے ہیں۔

ماہرین کیا کہتے ہیں

وفاقی حکومت کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہونے کے خدشات موجود ہیں افغان اُمورپرکام کرنے والے عزیزالرحمان نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ''بغیرکسی ہوم ورک کے افغان پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی سے دونوں ممالک کے عوام کے مابین دوریاں بڑھ گئی ہیں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ بے دخل کیے جانیوالے افغانوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جن کے قریبی رشتہ دار بیرون ملک رہائش پذیر ہیں اور وہ ہرماہ ایک خطیر رقم پاکستان ارسال کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے زرمبادلہ میں اہم کردارادا کر رہے تھے۔ افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی کے ساتھ ہی افغانستان میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کو بھی افغانستان چھوڑنا پڑا۔

یوں یہاں بھی ایک بڑا نقصان ہوا جبکہ تجارت میں اب ماہانہ کروڑوں روپے کے نقصان کے ساتھ خیبر سے کراچی تک کروڑوں روپے کا کاروبار کرنے والے تاجر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پاکستان کا وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔‘‘

ادارت: کشور مصطفیٰ