Live Updates

غزہ: ایک تہائی آبادی کو مسلسل فاقوں کا سامنا، ڈبلیو ایف پی

یو این جمعہ 27 جون 2025 00:00

غزہ: ایک تہائی آبادی کو مسلسل فاقوں کا سامنا، ڈبلیو ایف پی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ غزہ میں بیشتر خاندان روزانہ ایک وقت کے کھانے پر گزارا کر رہے ہیں جبکہ ایک تہائی آبادی کو کئی روز فاقوں کا سامنا رہتا ہے۔

غزہ کے شہریوں کو محدود مقدار میں جو امدادی خوراک میسر آتی ہے اس میں غذائیت کا فقدان ہوتا ہے۔ یہ عموماً پتلے شوربے، دالوں یا چاول اور تھوڑی سی روٹی یا بسا اوقات جڑی بوٹیوں اور زیتون کے تیل کے مرکب پر مشتمل ہوتی ہے جسے دقہ بھی کہتے ہیں۔

Tweet URL

ادارے کے مطابق بچوں، معمر اور بیمار افراد کو خوراک مہیا کرنے کے لیے بڑے عام طور پر فاقے کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

جنوری کے بعد روزانہ اوسطاً 112 بچوں کو شدید غذائی قلت کے علاج کی غرض سے طبی مراکز میں لایا جا رہا ہے۔

ایک شخص نے بتایا کہ رات کو جب ان کے بچے بھوک کے مارے جاگ اٹھتے ہیں تو وہ انہیں کہتے ہیں کہ پانی پی کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ یہ صورتحال نہایت دل شکن ہوتی ہے۔ بھوک لگنے پر وہ خود بھی پانی پیتے اور صبح ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔

خوراک کے لیے جان کا خطرہ

غزہ کے طبی حکام کا کہنا ہےکہ شدید غذائی قلت کے باعث لوگ اپنی جان کا خطرہ مول لے کر اسرائیل کے قائم کردہ امدادی مراکز پر خوراک لینے جاتے ہیں۔

27 مئی کے بعد ان مراکز پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور دیگر واقعات میں 549 فلسطینی ہلاک اور 4,066 خمی ہو چکے ہیں۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ کار جوناتھن وٹل نے کہا ہے کہ ان جگہوں پر بیشتر ہلاکتیں فائرنگ یا گولہ باری سے ہوئی ہیں۔ یہ مراکز سوچے سمجھے انداز میں ایسے جگہوں پر قائم کیے گئے ہیں جہاں عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔

ایک شہری نے 'ڈبلیو ایف پی' کو بتایا کہ لوگ خوراک لینے کے لیے ان مراکز پر نہیں جانا چاہتے لیکن ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔ بچے بھوک سے بلکتے ہیں تو والدین رات کو سو نہیں پاتے۔ چاروناچار لوگ اس امید پر خوراک لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ وہ زندہ واپس آ جائیں گے۔

پینے کے پانی کی قلت

طویل جنگ اور متواتر بمباری کے باعث غزہ میں تقریباً تمام خدمات کی فراہمی بند ہو جانے کا خدشہ ہے۔

غزہ میں ایندھن کی شدید قلت کے باعث پینے کا پانی فراہم کرنے کی صرف 40 فیصد تنصیبات ہی فعال ہیں جبکہ 93 فیصد گھرانوں کو آبی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ ایندھن کی عدم دستیابی کے نتیجے میں طبی خدمات کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے۔

19 مئی سے غزہ میں محدود پیمانے پر امدادی خوراک کی فراہمی بحال ہونے کے بعد کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے طبی سازوسامان لے کر 9 ٹرک ہی علاقے میں آئے ہیں۔

© UNICEF

متواتر نقل مکانی

42 روزہ جنگ بندی کے بعد 18 مارچ کو غزہ میں اسرائیل کی بمباری دوبارہ شروع ہونے کے بعد 684,000 فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔

غزہ کے 82 فیصد سے زیادہ علاقے میں اسرائیل کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں یا وہاں سے لوگوں کو انخلا کے احکامات دیے گئے ہیں۔

نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو گنجان پناہ گزین کیمپوں، عارضی خیموں، تباہ شدہ عمارتوں اور بعض اوقات کھلے آسمان تلے رہنا پڑتا ہے۔ سکول اب پڑھنے اور سیکھنے کی جگہوں کے بجائے پناہ گاہوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے کہا ہے کہ ان پناہ گاہوں میں رہن سہن کے حالات انتہائی مخدوش ہیں۔

یکم مارچ کے بعد پناہ کا کوئی سامان غزہ میں نہیں آیا۔ اگرچہ محدود مقدار میں بعض چیزوں کو علاقے میں لانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن خیموں، لکڑی، ترپالوں اور ایسے دیگر سامان پر بدستور پابندی ہے۔

امید کی علامت

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی ادارہ (انروا) اس جنگ کے آغاز سے ہی بے گھر اور زخمی شہریوں کو کئی طرح کی مدد فراہم کر رہا ہے۔

غزہ شہر میں ادارے کے ترجمان حسین نے بتایا کہ لوگوں کی تمام امیدیں 'انروا' سے ہی وابستہ ہیں۔ ادارے کے اہلکار لوگوں کو صرف خدمات ہی مہیا نہیں کرتے بلکہ وہ ان کے لیے امید کی علامت بھی ہیں۔

جنوبی علاقے خان یونس میں 'انروا' کی ایک کارکن نے بتایا کہ ادارے کے پاس اپنا کام کرنے کے ذرائع نہیں رہے اسی لیے لوگوں کو مدد پہنچانے کے لیے حالات کے مطابق طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بمباری، تباہی اور بھوک کے نتیجے میں بچے مایوس ہونے لگے ہیں اور انہیں خودکشی کے خیالات بھی آتے ہیں۔ ایک روز انہوں نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ اس کے مرحوم والد خدا کے پاس ہیں جہاں وہ کھاتے پیتے ہیں۔ یہ سننے کے بعد ان کی بچی اکثر روتی اور کہتی ہے کہ اسے بھوک لگی ہے اور وہ اپنے والد کے پاس جانا چاہتی ہے کیونکہ وہ انہیں کھانا دے سکتے ہیں۔

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات