اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2025ء) یوکرین نے الزام عائد کیا ہے کہ بنگلہ دیش روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں سے لی جانے والی چوری شدہ گندم خرید رہا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر یہ تجارت نہ رکی تو وہ یورپی یونین سے بنگلہ دیشی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کی درخواست کرے گا۔ یہ بات جنوبی ایشیا میں تعینات ایک اعلیٰ یوکرینی سفارت کار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتائی۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ روسی افواج 2014 ء سے اس کے جنوبی زرعی علاقوں پر قابض ہیں اور 2022 ء کی مکمل یلغار سے پہلے ہی روس یوکرینی اناج چوری کرتا رہا ہے۔ روس ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جن علاقوں سے اناج حاصل کیا گیا، وہ اب روس کا حصہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، اس لیے کوئی چوری نہیں ہو رہی۔
(جاری ہے)
روئٹرز کے مطابق انہیں دستیاب دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ یوکرین کے سفارت خانے نے اس سال بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کو کئی خطوط بھیجے، جن میں روسی بندرگاہ قفقاز سے بھیجے گئے مبینہ طور پر چوری شدہ ایک لاکھ 50 ہزار ٹن سے زائد اناج کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یوکرین کے بھارت میں سفیرآلیکسانڈر پولشچک نے اس بات کی تصدیق کی کہ بنگلہ دیش نے ان خطوط کا جواب نہیں دیا اور اب یوکرین اس معاملے کو یورپی یونین میں اٹھائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی کمپنیاں مقبوضہ یوکرینی علاقوں سے حاصل کی گئی گندم کو روسی گندم میں ملا کر برآمد کرتی ہیں تاکہ اس کا پتا نہ چل سکے۔پولشچک نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ جرم ہے۔
ہم اپنی تحقیقات یورپی یونین کے ساتھیوں سے شیئر کریں گے اور ان سے مناسب اقدام کی درخواست کریں گے۔‘‘یہ سفارتی تنازع پہلے منظرِ عام پر نہیں آیا تھا۔ بنگلہ دیش اور روس کی وزارتِ خارجہ نے روئٹرزکے تبصروں کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ تاہم بنگلہ دیش کی وزارت خوراک کے ایک اہلکار نے کہا کہ اگر کسی اناج کی اصل روس کے زیرِ قبضہ یوکرینی علاقے سے ہو تو بنگلہ دیش اس کی درآمد کی اجازت نہیں دیتا اور ملک میں کوئی چوری شدہ گندم درآمد نہیں ہو رہی۔
یوکرین کے مطابق جنگ کے باوجود اس کی زرعی برآمدات، جن میں گندم، خوردنی تیل اور تیل دار بیج شامل ہیں، بدستور ملکی آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں۔ اپریل میں یوکرین نے اپنی سمندری حدود میں ایک غیر ملکی جہاز کو روک لیا تھا جس پر چوری شدہ اناج کی ترسیل کا الزام تھا اور گزشتہ برس بھی ایک جہاز اور اس کے کپتان کو اسی شبے میں حراست میں لیا گیا تھا۔
یورپی یونین اب تک روس کے نام نہاد ''شیڈو فلیٹ‘‘سے وابستہ 342 بحری جہازوں پر پابندیاں عائد کر چکی ہے، جن کے ذریعے ماسکو تیل، ہتھیار اور اناج پر مغربی پابندیوں کو چکمہ دیتا ہے۔ روس ان پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔
یوکرینی قانون کے مطابق، مقبوضہ علاقوں میں یوکرینی کسانوں یا دیگر تجارتی اداروں کی روسی اداروں سے کسی قسم کی رضاکارانہ تجارت ممنوع ہے۔
یوکرین نے بنگلہ دیشی حکومت کو بھیجے گئے چار میں سے ایک خط میں خبردار کیا کہ ''چوری شدہ گندم‘‘ کی خریداری پر بنگلہ دیش کو ''سنگین نتائج‘‘ بھگتنا پڑ سکتے ہیں اور یہ تجارت ''انسانی المیے کو ہوا دیتی ہے۔‘‘
ایک روسی اناج تاجر نے، شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ روسی بندرگاہ پر، جب گندم برآمد کے لیے لادی جاتی ہے، تو اس کی اصلیت کا پتا چلانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس تاجر کے بقول، ''یہ نہ تو سونا ہے نہ ہی ہیرے۔ گندم میں شامل اجزاء سے اس کی شناخت ممکن نہیں۔‘‘
شکور رحیم، روئٹرز کے ساتھ
ادارت: امتیاز احمد