Live Updates

کیا حماس اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 27 جون 2025 17:40

کیا حماس اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2025ء) غزہ پٹی میں فلسطینی عکسریت پسند تنظیم حماس کو کمانڈروں کی کمی، سرنگوں کے نیٹ ورک کے بڑے حصے کی تباہی اور ایران کی غیر یقینی حمایت جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ مقامی قبائل کی بغاوت اور اسرائیلی فوج کے مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔ 1987ء میں اپنے قیام اور 2007ء میں غزہ پر حکمرانی کے آغاز کے بعد سے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ یہ تنظیم اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرنے اور حماس سے قریبی تعلق رکھنے والے تین ذرائع کے مطابق اس تنظیم کے جنگجو اب مرکزی کمان کے بغیر خود مختار انداز میں کام کر رہے ہیں اور ان کا بنیادی ہدف زیادہ سے زیادہ دیر تک مزاحمت برقرار رکھنا ہے۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے حماس مخالف قبائل کی کھلم کھلا حمایت کے باعث اس تنظیم کے لیے غزہ پٹی پر اپنی گرفت قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

زخم خوردہ لیکن قائم

غزہ پٹی میں انسانی بحران کے شدت اختیار کر جانے اور جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافے کے باعث حماس بھی لڑائی میں وقفے کی شدید خواہش مند ہے۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ جنگ بندی نہ صرف غزہ کے تھکے ہارے عوام کو کچھ راحت دے سکتی ہے بلکہ حماس کو بھی یہ موقع فراہم کر سکتی ہے کہ وہ ان باغی عناصر، قبائل اور امدادی سامان لوٹنے والوں سے نمٹے، جو تنظیم کی کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

روئٹرز نے اس رپورٹ کے لیے حماس سے قریبی تعلق رکھنے والے افراد، اسرائیلی سکیورٹی ذرائع اور سفارتکاروں سمیت 16 افراد سے بات کی۔ ان سب کا عمومی تجزیہ یہی تھا کہ اگرچہ حماس کو شدید دھچکا لگا ہے تاہم وہ غزہ میں اب بھی کسی حد تک اثر و رسوخ اور محدود عملی صلاحیت رکھتی ہے تاہم اسے شدید چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔

اسرائیلی فوج کے مطابق گزشتہ منگل کے روز جنوبی غزہ پٹی میں ایک حملے میں حماس نے سات اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تنظیم محدود پیمانے پر حملے کرنے کی صلاحیت اب بھی رکھتی ہے۔

تاہم مشرق وسطیٰ کے تین سفارتکاروں کے مطابق انٹیلیجنس رپورٹیں بتاتی ہیں کہ حماس کا مرکزی کمان اور کنٹرول کا نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے اور وہ صرف محدود اور اچانک حملے ہی کر سکتی ہے۔

اسرائیلی فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک حماس کے 20,000 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور اس ساحلی پٹی کے نیچے بنائی گئی سینکڑوں میل لمبی سرنگیں تباہ یا ناکارہ بنا دی گئی ہیں۔

قریب دو برسوں سے جاری اس جنگ میں غزہ پٹی کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔

ایک اسرائیلی سکیورٹی اہلکار کے مطابق حماس کے جنگجوؤں کی اوسط عمر روز بروز کم ہو رہی ہے اور یہ تنظیم بے روزگار، پسماندہ اور بے گھر نوجوانوں میں سے نئی بھرتیاں کر رہی ہے۔ حماس نے اب تک اپنے ہلاک شدہ جنگجوؤں کی مجموعی تعداد ظاہر نہیں کی۔

غزہ پٹی کے ایک رہائشی اور پیشے کے لحاظ سے مزدور عصام نے بتایا، ''وہ لوگ (حماس کے جنگجو) چھپے ہوئے ہیں کیونکہ ان پر فوری طور پر فضائی حملے ہوتے ہیں لیکن وہ کہیں کہیں نظر آتے ہیں، جیسے کہ بیکریوں کے سامنے قطاریں منظم کرتے، امدادی ٹرکوں کی حفاظت کرتے یا جرائم پیشہ عناصر کو سزا دیتے۔

وہ پہلے جیسے نہیں رہے، لیکن موجود ضرور ہیں۔‘‘

حماس کے ایک سینئر رہنما سمیع ابو زہری نے روئٹرز کو بتایا کہ یہ تنظیم جنگ کے خاتمے کے لیے کسی معاہدے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ان کے بقول ''ہتھیار ڈالنا کوئی آپشن نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حماس مذاکرات کے لیے پرعزم ہے اور وہ ''تمام قیدیوں (یرغمالیوں) کو ایک ہی وقت میں رہا کرنے‘‘کے لیے بھی تیار ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل حملے بند کرے اور اپنی فوج واپس بلائے۔

اسرائیلی حمایت یافتہ قبائل، حماس کے لیے چیلنج

اسرائیل کی جانب سے حماس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کے طور پر فلسطینی قبائل کو اہم کردار دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اعلانیہ کہا ہے کہ ان کے ملک نے ان قبائل کو مسلح کیا ہے، جو حماس کے مخالف ہیں، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کن گروہوں کو اسلحہ فراہم کیا گیا۔

ان میں سے حماس کے لیے سب سے نمایاں چیلنج یاسر ابو شباب کی شکل میں سامنے آیا ہے، جو رفح کے علاقے کے ایک فلسطینی بدو ہیں۔ یہ علاقہ اس وقت اسرائیلی کنٹرول میں ہے۔ ذرائع کے مطابق حماس ابو شباب کو ہر حال میں گرفتار یا ہلاک کرنا چاہتی ہے۔ اس پر اسرائیل سے تعاون اور حماس کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔

ابو شباب مشرقی رفح پر کنٹرول رکھتے ہیں اور ان کے گروہ کو پورے رفح میں نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہے۔

ان کی فیس بک پر شائع شدہ تصاویر میں ان کے مسلح افراد کو کیرم شالوم کراسنگ سے امدادی ٹرکوں کے داخلے کو منظم کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ابو شباب کے گروہ کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علاقے میں ایک خود مختار انتظامیہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم وہ حکومت سنبھالنے کے ارادوں کی تردید کرتے ہیں۔ اس گروہ نے رفح کے ان باشندوں سے، جو جنگ کے باعث دیگر علاقوں میں پناہ گزین ہیں، واپسی کی اپیل کی ہے، جبکہ خوراک اور پناہ کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

روئٹرز کی جانب سے بھیجے گئے سوالات کے جواب میں ابو شباب کے گروہ نے اسرائیلی فوج سے کسی بھی رابطے یا تعاون کی تردید کی ہے اور خود کو ایک ''عوامی فورس‘‘ قرار دیا ہے، جو امدادی سامان کو لوٹ مار سے بچانے کے لیے امدادی ٹرکوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ اس گروہ نے حماس پر تشدد کرنے اور اختلاف رائے کو دبانے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

ایرانی حمایت کی غیر یقینی صورت حال

اسرائیل کی ایران پرحالیہ بمباری نے حماس کو درپیش غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایران کی مدد سے حماس ایک مضبوط مسلح قوت بنی تھی، جو اسرائیل پر راکٹ حملے کر سکتی تھی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایران پر حملہ غزہ میں کامیابی اور یرغمالیوں کی رہائی میں مدد دے گا، جب کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اسے مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔

حماس کے قریبی فلسطینی ذرائع کے مطابق ایران کی مدد میں ممکنہ کمی سے تنظیم کی مالی معاونت اور عسکری مہارت متاثر ہو سکتی ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک اعلیٰ افسر سعید ایزدی کو ہدف بنایا، جو حماس سے رابطوں کے نگران تھے۔ انہوں نے اس عسکری تنظیم کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جن میں پیچیدہ حملوں کی منصوبہ بندی، راکٹ حملے، دراندازی کی کارروائیاں اور ڈرونز کے استعمال کی تربیت شامل ہیں۔ حماس نے ایزدی کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ حماس کے رہنما ابو زہری نے کہا کہ ایران ایک طاقتور ملک ہے، جو اس طرح ختم نہیں ہو سکتا۔

شکور رحیم، روئٹرز کے ساتھ

ادارت: امتیاز احمد، مقبول ملک

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات