اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جون 2025ء) سماجی سائنس دانوں کے مطابق سوشل میڈیا صارفین نے ایران میں ''رجیم چینج‘‘ اور مضبوط دفاع کی ضرورت و صلاحیت کو براہ راست پاکستان سے جوڑ کر دیکھا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے سماجی مورخ علی عثمان قاسمی کہتے ہیں، ”سیاسی بحث کے لیے پہلے ٹویٹر کا استعمال زیادہ تھا، جب سے یہ 'ایکس‘ ہوا اس کے الگورتھم بدل گئے۔
اب ایسی سرگرمیوں کے لیے فیس بک سب سے مناسب پلیٹ فارم ہے جس کی ایک جھلک ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد ہمارے دانشوروں کی بحث میں ملتی ہے۔"ان کے بقول، ”ایک طرف ایسی بحثیں مخصوص بیانیہ تشکیل دیتی ہیں، دوسری طرف مختلف نقطہ نظر جاننے اور معاشرے کے فکری رویوں کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
(جاری ہے)
"
سوشل میڈیا کا ردعمل
سماجی دانشور اور مصنف احمد اعجاز ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اتنے مختلف قسم کے ورژن تھے کہ انہیں مخصوص خانوں میں بانٹنا مشکل کام ہے۔
ہم اپنی تفہیم کے لیے کہہ سکتے کہ ایک طرف ایران کے حامی تھے، دوسری جانب اس کے مخالف۔"وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتاتے ہیں، ”مذہبی رجحان رکھنے والے افراد اور روایتی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشور امریکہ اور اسرائیل کی بھرپور مذمت کرتے رہے، یہ رجحان غالب رہا، بطور معاشرہ ہمارے جذبات بھی اسی طرح کے ہیں۔ بہت تھوڑے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اسرائیل اور امریکہ کے ایران پر حملوں کے حمایتی رہے، یہ زیادہ تر وہ ہیں جن کی شناخت لبرل دانشور کی ہے۔
"ڈی ڈبلیو اُردو سے بات کرتے ہوئے معروف مؤرخ اور سیاسی و سماجی کارکن عمار علی جان کہتے ہیں، ”مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ کر ہمارے سوشل میڈیا صارفین اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں چاہے وہ غزہ میں ہو یا ایران میں۔ اس حوالے سے معاشرے میں یا سوشل میڈیا پر کوئی 'تقسیم‘ نہیں۔ اگر ایک دو فیصد لوگ سامراجی طاقتوں اور نوآبادیاتی حکمرانوں کی زبان بول رہے ہیں تو ان کی کوئی اہمیت نہیں، وہ مقامی فکری رجحانات کی عکاسی نہیں کرتے۔
"احمد اعجاز کے بقول، ”زیادہ تر بحث ان سوالوں کے گرد گھومتی رہی کہ کس کی پوزیشن درست اور مضبوط ہے، ایران کس حد تک مزاحمت کرے گا، کس نے کہاں حملہ کیا اور کتنا نقصان ہوا، جنگ کا انجام کیا ہو گا۔"
وہ کہتے ہیں، ”عام سوشل میڈیا صارفین اور مفکرین نے رجیم چینج اور تیسری دنیا کے ممالک کے پاس مضبوط دفاعی نظام اور ایٹم بم کی ضرورت کو براہ راست پاکستان سے جوڑ کر دیکھا۔
"نئے فکری و جذباتی رجحانات
کیا ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی پر پاکستانی عوام اور دانشوروں کا ردعمل ایک تاریخی تسلسل کا حصہ ہے یا یہ کسی نئے فکری رجحان کی نمائندگی کرتا ہے؟
علی عثمان قاسمی کے مطابق، ”جہاں تک دانشوروں کے ردعمل کا تعلق ہے، اس میں کچھ نئے فکری رجحانات تلاش کیے جا سکتے ہیں، سرد جنگ کے دوران سیاسی اسلام اور امریکہ اتحادی تھے اور ان حکومتوں اور نظریات کے خلاف صف آرا تھے جنہیں ہم بائیں بازو کے یا سوشلسٹ خیالات رکھنے والے کہتے ہیں۔
بعد میں امریکہ کی ترجیحات کی تبدیلی کے ساتھ سرد جنگ کا اتحاد بھی ٹوٹ گیا۔ یہ دلچسپ اور قابلِ فہم ہے کہ آج ہمارا مذہبی طبقہ اور بائیں بازو والے اسرائیلی جارحیت کے معاملے میں ایک جیسا موقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔"ان کے بقول ایک بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ، ”ایراناسرائیل یا اسرائیل فلسطین جنگ کے معاملے میں ہمارا اسلام پسند طبقہ اور بائیں بازو والے پوزیشن ایک لے رہے ہیں لیکن دونوں کی نظریاتی اساس اور وجوہات بالکل مختلف بلکہ متضاد ہیں۔
"احمد اعجاز کہتے ہیں، ”ہمارے ملک میں فرقہ واریت کی ایک تاریخ ہے۔ ایک بڑا طبقہ جو ایران کی شیعہ شناخت کے بارے میں تعصب کے جذبات رکھتا آیا ہے، اس نے حالیہ جنگ کے دوران کھل کر ایران کی حمایت کی۔ عام سوشل میڈیا صارفین نے جس شدت سے ایران کے حق میں جذبات کا اظہار کیا، وہ اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو۔"
مختلف فکری رجحانات معاشرے کے بارے میں کیا ظاہر کرتے ہیں؟
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے مصنفہ اور لبرل شناخت سے جڑی کارکن ڈاکٹر فاخرہ نورین کہتی ہیں، ”سوشل میڈیا پر ہمیں مختلف لوگوں کے خیالات ایک ساتھ جاننے کا موقع ملا، یہ غیر روایتی انداز میں ایک مکالمہ تھا۔
"ان کے بقول، ”سوشل میڈیا پر بحث کا میدان زیادہ تر فیس بک رہی۔ فیس بک پر لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ کسی نے پوسٹ لگائی تو جواب میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے کئی لوگ اپنی اپنی وال پر سرگرم ہو گئے۔ یہ عام روٹین میں بھی چلتا رہتا ہے لیکن کئی روز تک ایک مخصوص موضوع پر اس طرح مکالمہ ہوتے دیکھنا اچھا لگا، اس کا مطلب ہے ہم اب بھی مکالمہ کر سکتے ہیں۔
"عمار علی جان کہتے ہیں، ”ایران اسرائیل یا اسرائیل فلسطین جنگ کا ایک بنیادی پہلو شناخت کا سوال ہے۔ استعمار نے پوری دنیا میں مخصوص بیانیہ تشکیل دینے اور مرضی کے ظالم اور مظلوم تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ فلم، میڈیا، سوشل میڈیا ہر طرح سے پروپیگنڈہ کیا۔ ہمارے ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ استعمار اتنے وسائل کے باوجود اپنے اہداف میں ناکام رہا، وہ مختلف معاشروں کو نہیں قائل کر سکا کہ وہ ٹھیک کر رہا ہے۔
"علی عثمان قاسمی کے مطابق، "سوشل میڈیا پر جس شدت سے یہ بحث چلتی رہی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل بین الاقوامی سیاست کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ان کے پاس معلومات کتنی وسیع اور فکری بنیاد کس قدر پختہ ہے، ان کا متحرک ہونا اور اظہارِ رائے میں حصہ لینا ایک خوش آئند رجحان ہے۔"
فاخرہ نورین ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتی ہیں، ”ہماری ڈیجیٹل دنیا میں تنقیدی سوچ کا شدید فقدان ہے۔ لوگ اکثر مستند معلومات کو رد کر کے وہ باتیں قبول کر لیتے ہیں جو ان کے جذبات کی تسکین کرتی ہیں، چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہوں۔ پورے دنیا میں یہ ہو رہا ہے اور ہمارے ہاں بھی ہوا۔"
ادارت: کشور مصطفیٰ