اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) انتہائی دائین بازو کی بھارتی جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے مطالبہ کیا کہ آئین سے ''سیکولر‘‘ اور ''سوشلسٹ‘‘ جیسے الفاظ کو نکال دیا جائے۔ بھارتی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی آر ایس ایس کے نظریات سے متاثر ہے۔
آر ایس ایس کا بھارتی آئین سے'سوشلسٹ، سیکولر‘الفاظ ہٹانے کا مطالبہ
کنگنا رناؤت کی فلم 'ایمرجنسی' پر ہنگامہ کیوں برپا ہے؟
یہ مطالبہ آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے کی جانب سے سامنے آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ایمرجنسی کے دوران یہ الفاظ آئین میں شامل کیے گئے، وہ آج بھی بھارت کی سیاسی تاریخ کے متنازعہ ترین ابواب میں سے ایک ہے۔(جاری ہے)
1975 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی جو مارچ 1977 تک جاری رہی۔ اسی ایمرجنسی کے دوران 1976 کی 46ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ''سوشلسٹ‘‘ اور ''سیکولر‘‘ کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔
'آئین بنانے والوں کی روح سے غداری‘
اب نصف صدی بعد آر ایس ایس ان الفاظ کو غیر ضروری قرار دے رہا ہے۔ ہوسابلے کے مطابق، ''یہ الفاظ آئین سازوں کی روح سے غداری اور سناتن کے جذبے کی توہین ہیں۔‘‘ سناتن دھرم ہندو مت کی بنیادی اور قدیم ترین شکل ہے، جس میں معاشرہ ذاتوں میں تقسیم ہوتا ہے اور ہر ذات کی اپنی الگ ذمہ داریاں اور فرائض مقرر ہوتے ہیں۔
بی جے پی کے قریبی حلقے بھی اس موقف کی تائید کر رہے ہیں۔ نائب صدر جگدیپ دھنکھر نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ایمرجنسی کے دوران زبردستی شامل کیے گئے الفاظ ہیں جو بھارتی تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتے۔
اندرا گاندھی نے اس وقت کے سیاسی دباؤ، بائیں بازو کے اثرات اور سماجی برابری کے نعرے کو آئینی حیثیت دینے کے لیے یہ ترمیم کی تھی۔ سیاسی مورخ رشید قدوائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت بھارتی مسلمان نوجوان یہ سمجھ چکے تھے کہ صرف مذہب کی بنیاد پر بھارت ان کے لیے ایک محفوظ ملک نہیں، بلکہ اس کی سیکولر شناخت ہی ان کی ضمانت ہے۔
"بی جے پی کے ترجمان پریم شکلا کے بقول، ''ہم ہندو سیکولرزم کے خلاف نہیں، بلکہ مغربی سیکولرزم اور اس کے زبردستی تھوپے جانے کے خلاف ہیں۔‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ الفاظ صرف ایمرجنسی کی دین ہیں، یا بھارتی آئین کی روح کو مکمل کرتے ہیں؟
بھارتی آئین کی بنیاد
بھارت کے آئین کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی گئی، ان میں جمہوریت، انصاف، آزادی، برابری اور بھائی چارہ شامل تھے۔
1950 میں جب آئین نافذ ہوا تو اس میں ''سیکولر‘‘ اور ''سوشلسٹ‘‘ الفاظ شامل نہیں تھے، لیکن آزادی کے بعد کی تین دہائیوں میں بھارت کی سماجی و سیاسی صورتحال بدلی۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا، بینکوں کو قومیا لینے کی پالیسی، جاگیرداری کے خاتمے اور معیشت کو عوام دوست بنانے کی کوششوں نے ایک سوشلسٹ ریاست کے تصور کو تقویت دی۔سیکولرزم کی "بھارتی تشریح"
بھارت میں سیکولرزم کا تصور مغربی ماڈل سے مختلف ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر رتن لال کے مطابق، ''بھارت میں سیکولر ریاست کا مطلب صرف مذہب سے لاتعلقی نہیں بلکہ تمام مذاہب کا یکساں احترام ہے۔ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور شہریوں کو اپنی شناخت کے لیے کسی مذہبی شناخت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
‘‘یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سیکولر شناخت اقلیتوں کے لیے ایک حفاظتی دیوار تصور کی جاتی رہی ہے۔
یہ بحث محض ایک نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ بھارت کی اجتماعی شناخت اور مستقبل کی سیاست کا تعین کرے گی۔ تاریخی طور پر آئین میں تبدیلی کی کوششیں عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکیں۔ کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت کے بقول، ''یہ سب بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔
‘‘تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغربی دنیا بھارت کو تجارت اور دیگر رعایتیں اسی لیے دیتی رہی کہ وہ دیگر ممالک کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کرنا چاہتی تھی۔ لیکن موجودہ بھارتی حکومت کی ان اقدار سے دور ہونے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب مغرب بھارت کے ساتھ تعلقات کو صرف لین دین تک محدود کر رہا ہے اور ان کے بدلے قیمت وصول کرنا چاہتا ہے۔
بی جے پی نےآر ایس ایس کے کونسے وعدے پورے کیے؟
2024 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے کھلے عام کہا کہ اگر وہ 400 نشستیں جیت گئی تو آئین میں ترمیم کرے گی، لیکن بی جے پی صرف 240 سیٹیں حاصل کر سکی اور کانگریس نے آئین بچاؤ مہم کو اپنی کامیابی کا سبب بتایا۔
2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے آر ایس ایس کے کئی خواب پورے کیے: جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنا، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور یکساں سول کوڈ کی راہ ہموار کرنا۔ اب مبصرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی کے لیے آئین میں تبدیلی اگلا بڑا ہدف ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات اور خارجہ پالیسی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔