امریکہ کا اسرائیل کوبی 2 اسٹیلتھ بم بار طیارے اورجی بی یو 57بم دینے پر غور

ریپبلکن رکنِ کانگریس مائیک لولر اور ڈیموکریٹ رکن جوش گوٹہائمر نے قراردادایوان میں پیش کردی

جمعرات 3 جولائی 2025 16:21

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2025ء)ایک سیکیورٹی ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو اسٹیلتھ بم بار طیاری اور ایسے بم فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے جو زیرزمین بنکروں اور محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اسرائیلی ٹی وی کے مطابق ذریعے نے بتایا کہ امریکی کانگریس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتوں کے درمیان متفقہ ایک نئے مشترکہ مسود قانون کے تحت، اسرائیل مستقبل میں بی2 اسٹیلتھ بم بار طیارے اورجی بی یو 57بم حاصل کر سکتا ہے۔

یہ زیر زمین مورچوں کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ذرائع کے مطابق، یہ پیش رفت ایک غیر معمولی اقدام شمار ہو رہی ہے، کیونکہ یہ ایسے جدید ہتھیار ہیں جو اس سے قبل کبھی کسی غیر ملکی ریاست کو منتقل نہیں کیے گئے۔

(جاری ہے)

قانونی مسودہ پیش کرنے والے اراکین کے مطابق، اقدام کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایران جوہری طاقت نہ بن سکے۔یہ مسودہ ریپبلکن رکنِ کانگریس مائیک لولر اور ڈیموکریٹ رکن جوش گوٹہائمر کی قیادت میں پیش کیا گیا، جنھوں نے زور دیا کہ اسرائیل مشرقِ وسطی میں امریکہ کا قریبی ترین عسکری اتحادی ہے، اور اگر ایران نے دوبارہ سرخ لکیر عبور کی تو اسرائیل کو خود مختار طور پر کارروائی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

انھوں نے اپنی تجویز میں یہ بھی شامل کیا کہ: کسی بھی صورت میں ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔قانونی مسودے میں یہ شق بھی شامل ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اسرائیل کو ایسے سے کسی بھی فوجی سازوسامان، تعاون، تربیت یا وسائل سے لیس کریں، جو ایران کی جوہری حیثیت کو ختم رکھنے کے لیے ضروری ہوں، ان میں وہ ہتھیار بھی شامل ہیں جو اب تک صرف امریکی استعمال کے لیے مخصوص رہے ہیں۔

اس فہرست میں بی-2 اسٹیلتھ ب مبار شامل ہے جو جدید دفاعی نظاموں کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، نیز GBU-57 نامی 14 ٹن وزنی بم بھی شامل ہے، جو زمین دوز بنکروں کو تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔اگرچہ اس قانونی مسودے میں بی-2 طیارے اور GBU-57 بم کا صراحتا ذکر نہیں کیا گیا، مگر اس میں اسلحے کی کسی بھی مخصوص قسم پر پابندی عائد نہیں کی گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کو امداد میں شامل کرنا ممکن ہے۔