اے این پی کی سینیٹ میں دریائے سوات سے متعلق تحریک التواء جمع

جمعرات 10 جولائی 2025 22:09

&پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 جولائی2025ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے سینیٹ آف پاکستان میں اہم تحریک التواء جمع کروائی ہے، جس میں دریائے سوات سے جڑے ماحولیاتی، انتظامی اور انسانی بحران پر فوری اور تفصیلی بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تحریک التواء میں سینیٹر ایمل ولی خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ دریائے سوات، جو خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک کے لیے زرعی اور ماحولیاتی لحاظ سے کلیدی اہمیت رکھتا ہے، طویل عرصے سے حکومتی عدم توجہی اور بدانتظامی کا شکار ہے۔

اب تک دریا کی باقاعدہ حدبندی نہیں کی گئی، اور پشتوں کی عدم تعمیر کے باعث ہر سال سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے، جس سے مقامی آبادی کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچتا ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر ایمل ولی خان نے مزید کہا ہے کہ دریا کے اردگرد متعدد غیر قانونی تعمیرات کے لیے این او سیز جاری کیے گئے، جن کی قانونی حیثیت اور شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے ایوان سے مطالبہ کیا کہ ان این او سیز کے اجرا کے ذمے دار اداروں، سفارش کنندگان، اور فائدہ اٹھانے والوں کی مکمل تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

تحریک التواء میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)، پرووینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) اور ریسکیو 1122 خیبرپختونخوا کی کارکردگی پر بھی سخت سوالات اٹھائے گئے ہیں۔سینیٹر ایمل ولی خان نے پوچھا کہ آیا ان اداروں نے ممکنہ سیلابی خطرات سے نمٹنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کیے ہیں کیا کوئی پیشگی وارننگ سسٹم یا ریور مانیٹرنگ نظام موجود ہی اور کیا عوامی آگاہی یا مقامی حکومتوں کے اشتراک سے کوئی مربوط منصوبہ بندی کی گئی ہی تحریک التواء میں مطالبات کی گئی ہے کہ دریائے سوات کی قانونی حدبندی اور حفاظتی پشتوں کی عدم تعمیر کی تحقیقات کریں،غیر قانونی این او سیز کے اجرا کی شفاف انکوائری اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں اور این ڈی ایم اے،پی ڈی ایم اے اور ریسکو 1122 کی کارکردگی پر ایوان کو بریفنگ اور ثابت شدہ غفلت پر اقدامات کریں۔

اسی طرح جامع ریور مینجمنٹ پالیسی کی تشکیل جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔این او سی اجرا کے لیے شفاف اور ماحول دوست پالیسی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سینیٹر ایمل ولی خان نے واضح کیا کہ یہ مسئلہ نہ صرف ماحولیاتی تباہی بلکہ انسانی جانوں، ریاستی اعتماد اور وسائل کے ضیاع سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایوان کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سنگین معاملے پر سنجیدہ اور بروقت توجہ دے۔