اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جولائی 2025ء) محققین نے یورالک زبانوں کی ابتدا کے بارے میں ایک قدیم معمہ حل کر لیا ہے۔ یہ زبانیں ہزاروں سال پہلے بولی جاتی تھیں لیکن ان کے بولنے والے ابتدائی لوگ کون تھے؟
یہ جاننے کے لیے، محققین نے جینیاتی اور آثار قدیمہ کے اعداد و شمار کو مربوط کر کے ان لوگوں کے آباؤ اجداد کا پتہ لگایا جو اب یورالک زبانیں بولتے ہیں۔
قدیم ثقافتی روایات کے تحفظ کی کوششیں
جریدہ ’نیچر‘میں شائع ہونے والی ان کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 11,000 اور 4,000 سال قبل کے درمیان یوریشیا میں یورالک بولنے والی آبادی کے پھیلاؤ کے لیے انہیں کس طرح ایک ’جینیاتی ٹریسر ڈائی‘ملا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح یورالک لوگ سائبیریا سے بحیرہ بالٹک اور مشرقی ایشیا تک ہجرت کر کے اپنے ساتھ تکنیکی ترقی اور یورالک زبان لے کر آئے۔
(جاری ہے)
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آج کل رہنے والے 25 ملین سے زائد یورالک زبان بولنے والے اپنے ڈی این اے میں اس نسب کا پتہ لگا سکتے ہیں۔
یورپ میں دو سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں
ایسٹونیا کی ٹارٹو یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کی ماہر کرسٹینا ٹمبیٹس، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں، نے کہا، ’’یہ مطالعہ میرے لیے بحیثیت اسٹونین ناقابل یقین حد تک دلچسپ ہے۔
ہم یورالک بولنے والوں میں سائبیرین ڈی این اے کا یہ تھوڑا سا حصہ ہے۔ ہمارے کل ڈی این اے کا تقریباً 5 فیصد۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ جین تمام یورالک لوگوں کو ہماری آبائی ثقافتوں اور زبانوں سے جوڑتے ہیں۔‘‘یورالک لوگوں کا آبائی وطن؟
سائنسدانوں نے اس سے قبل ہند یورپی زبانوں کی جڑوں کا سراغ لگایا ہے۔ یہ لسانی جڑ وسطی ایشیا سے یورپ اور بھارت کی طرف ہجرت کرنے والے لوگوں کے ذریعے 5000 سال پہلے شروع ہوئی۔
آخرکار، زبان جرمن، سلاوی، اور رومانی جیسے جدید گروہوں میں پھیل گئی۔لیکن یورالک زبانیں بالکل مختلف ہیں۔ ماہرین اس زبان کی اصلیت یا اسے کون لوگ بولتے تھے، کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورالک زبانیں، مثلاﹰ ایسٹونیا، ہنگری اور فن لینڈ میں بولی جانے والی زبانیں، انڈو-یورپی زبانوں کے مقابلے میں، ایک بالکل مختلف لسانی اصل سے آتی ہیں۔
تاریخ لکھنے کا آغاز کب ہوا اور اس کی بنیادیں کیسے بنتی ہیں؟
ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ یورالک زبانیں جدید دور کے روس اور قازقستان میں، یورال پہاڑوں کے قریب کہیں سے شروع ہوئیں۔ لیکن بحث یہ ہے کہ اس کی اصل جگہ کہاں تھی، اور یوریشیا میں یورالک زبانیں کیسے پھیلیں۔
مطالعہ کے مصنفین کا مقصد قدیم یورالک لوگوں کے جینز کا مطالعہ کرکے اس معمہ کو حل کرنا تھا۔
قدیم افراد کے ڈی این اے کے نمونوں اور تغیرات کا تجزیہ کرکے، وہ اس بات کی از سر نو تشکیل کر سکتے ہیں کہ اس آبادی نے کئی نسلوں میں کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کی۔انہوں نے 180 قدیم یورالک لوگوں کے جینوم کا تجربہ کیا، جو 11,000-4,000 سال پہلے یوریشیا کے ایک بہت بڑے علاقے میں رہتے تھے- اس میں جدید دور کے روس اور اس کے پڑوسیوں کی پوری رینج کا احاطہ کیا گیا۔
انہوں نے اس قدیم جینومک ڈیٹا کا موازنہ دوسرے 1,312 قدیم لوگوں کے ڈی این اے سے کیا جن کا سائنسدانوں نے پہلے ہی مطالعہ کیا تھا۔پاکستان کا لسانی ورثہ: 74 زبانوں کا ادبی عجائب گھر
ان کے اعداد و شمار نے اس بات کی ایک پیچیدہ تصویر دکھائی کہ کس طرح یورالک لوگوں نے ہزاروں سالوں میں سائبیریا کے متعدد اصل علاقوں سے ہجرت کی۔
اس تحقیق کے پہلے مصنف ہارورڈ یونیورسٹی، امریکہ کے تیان چن زینگ نے کہا، ’’ہمارا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ دور کے یورالک بولنے والے اپنا تعلق اپنے آباؤ اجداد کا ایک حصہ مشرق سے بہت دور، سائبیریا کے یاکوتیا علاقے سے پاتے ہیں۔
‘‘ان ہجرت کرنے والے لوگوں کی جینیات کا سراغ لگاتے ہوئے، محققین نے پایا کہ ابتدائی پروٹو یورالک لوگ ہزاروں سالوں میں کئی مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔
ایک بڑا گروپ مغرب کی طرف بالٹک یعنی فن لینڈ، ایسٹونیا اور شمال مغربی روس جیسے علاقے کی طرف چلا گیا، جہاں آج کل یورالک زبان بولنے والے رہتے ہیں۔
سینکڑوں زبانیں ناپیدگی کے خطرے سے دوچار
ایک اور پروٹو یورالک گروپ جسے ینیسیئن کہتے ہیں، تقریباً 5,400 سال قبل وسطی سائبیریا میں رہنے کے لیے چلے گئے۔
وہاں، زندہ رہنے والی ینیسیائی زبان صرف کیٹ ہے۔اور ایک اور شاخ تقریباً 4,500 سال قبل مشرقی ایشیا میں ہجرت کر گئی تھی، جس کے بارے میں مصنفین کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے یورالک بولنے والے لوگ کچھ مشرقی ایشیائی نسب رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ پھر امریکہ کی طرف ہجرت کر گئے اور مقامی امریکیوں کی طرح پروان چڑھے۔
وسطی یوریشیائی میدانی سرزمین کے دیگر یورالک گروہ تقریباً 3,000 سال قبل مغرب کی طرف ہنگری میں ہجرت کر گئے تھے۔
یہ مطالعہ اس خیال کی بھی تائید کرتا ہے کہ مشرقی یورال پہاڑ یورالک زبانوں کا وطن ہے۔
ٹمبیٹس نے کہا، ’’یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ لوگ اپنے جین کی بنیاد پر کون سی زبانیں بولتے ہیں۔‘‘
جدید ثقافت پر قدیم یورالک لوگوں کے اثرات
اسٹونین روٹس کے سینٹر آف ایکسیلنس کے سربراہ ٹمبیٹس نے کہا کہ یہ مطالعہ نسب کے بارے میں سوالات کو حل کرنے کا ’’طریقہ‘‘ ہے۔
’’یہ جینیات، زبان اور آثار قدیمہ کے بارے میں تمام مختلف پہلوؤں کو ایک ساتھ لاتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح یورالک بولنے والے لوگ اس بات کا پتہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے کس طرح اس (ہجرت) کے راستے پر عمل کیا اور 4,000 سال پہلے ’سوپر کول‘ تکنیکی ترقی کے ساتھ پھلے پھولے۔‘‘
’سوپر کول ترقی‘ سے ٹمبیٹس کی مراد دھات کاری، خاص طور پر تانبے اور کانسی کی دھات کاری ہے، اور تجارتی نیٹ ورک جو ابتدائی یورالک لوگوں نے تیار کیے تھے۔
زینگ نے ایک ای میل میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے یورالک لوگوں نے ''یورپ جاتے ہوئے مختلف لوگوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر میل جول کی۔‘‘
ٹمبیٹس نے کہا، یہ یورالک لوگ یوریشیا کے آس پاس کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔ بالٹک میں،’’ابتدائی (انڈو-یورپی) آباد کار اس بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے بعد یورالک بولنے والے لوگوں کے ساتھ اکٹھے ہوئے۔
میں اس انضمام کی ایک موزیک ہوں۔‘‘اپنی زبانوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ، یورالک لوگوں نے انڈو-یورپی زبانوں کو بھی متاثر کیا جو آج زیادہ تر یورپی بولتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ'پانی‘، 'برتن‘اور'مچھلی‘جیسے الفاظ اصل میں پروٹو یورالک سے نکلے ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین