ایران کی جوہری مذاکرت کی بحالی کے لیے مشروط رضامندی

DW ڈی ڈبلیو اتوار 13 جولائی 2025 14:00

ایران کی جوہری مذاکرت کی بحالی کے لیے مشروط رضامندی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جولائی 2025ء) عباس عراقچی نے تہران میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت دوبارہ شروع ہونے کی صورت صرف تب ہی پیدا ہوسکتی ہے اگر جنگ کا راستہ بند کر دیا جائے۔

رواں سال 22 جون کو ایران پر امریکہ کی جانب سے حملہ اور اس سے قبل اسرائیل کی جانب سے مسلسل 12 روز جاری رہنے والے حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز دوبارہ کرنا چاہتے ہیں تو، "سب سے پہلے اس بات کی ضمانت دینا ہوگی کہ اس طرح کے حملے دوبارہ نہیں کیے جائیں گے۔

(جاری ہے)

" انہوں نے کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں نے اس بابت بات چیت کو پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کے بعد ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے ساتھ تعاون بھی معطل کر دیا۔ اس دوران ایران کے جوہری تنصیبات کی نگرانی کرنے والے بیرون ملکی انسپکٹرز کو بھی ملک چھوڑنا پڑا۔

عراقچی نے کہا کہ ایرانی قانون کے تحت اور ایران کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایجنسی کی جانب سے تعاون کی درخواست کا جواب دے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی جوہری ایجنسی آئی اے ای اے کی جانب سے کوئی بھی معائنہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایران کی سکیورٹی کو مد نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ معائنہ کاروں کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جائے۔

انہوں نے کہا، "حملوں کے نتیجے میں جوہری مقامات پر تابکاری کے پھیلاؤ اور گولہ بارود کے پھٹنے کا خطرہ سنگین ہے۔

"

دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کی جانب سے کارروائی اس لیے کی گئی کیونکہ تہران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قریب ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے اندازوں کے مطابق ایران کے پاس آخری بار 2003 میں جوہری ہتھیاروں کا ایک منظم پروگرام موجود تھا۔ ایران نے 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر لی ہے، جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری 90 فیصد افزودگی کے قریب تر ہے۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے رواں ہفتے شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکی فضائی حملوں نے ان کے ملک کی جوہری تنصیبات کو اس قدر بری طرح نقصان پہنچایا ہے کہ ایرانی حکام نقصان کا جائزہ لینے کے لیے ابھی تک جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل نہیں کر سکے ہیں۔

ایجنسیوں کے ساتھ رابعہ بگٹی

ادارت: شکور رحیم