شام: دو گروہوں کے تصادم میں درجنوں افراد ہلاک

DW ڈی ڈبلیو پیر 14 جولائی 2025 12:00

شام: دو گروہوں کے تصادم میں درجنوں افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جولائی 2025ء) شام میں جنگی نگرانی کرنے والے گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) نے اتوار کے روز بتایا کہ جنوبی شام میں بدو سنی قبائل اور دروز برادری کے درمیان جھڑپوں کے دوران کم از کم 37 افراد ہلاک ہو گئے۔

ایس او ایچ آر کا کہنا ہے کہ دروز آبادی کے لیے معروف شہر سوئیدا میں لڑائی میں یہ افراد ہلاک ہوئے اور اس کی اطلاعات کے مطابق مرنے والوں میں سے ستائیس دروز تھے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں، جبکہ بدوی قبائل سے تعلق رکھنے والے دس افراد ہلاک ہوئے۔

ہیئت تحریر الشام اور القاعدہ کے درمیان ’فعال تعلق‘ نہیں دیکھا گیا، اقوام متحدہ

اپریل کے اواخر اور مئی کے اوائل میں دروز برادری اور شامی سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم شروع ہو گیا تھا، جس کے بعد اس علاقے میں لڑائی شدت اختیار کر گئی تھی اور تب بھی لڑائی میں درجنوں لوگ مارے گئے تھے۔

(جاری ہے)

بدو قبائل اور دروز میں طویل تنازعہ

خبر رساں ادارے روئٹرز نے عینی شاہدین کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ تازہ ترین تشدد کی لہر اغوا کے متعدد واقعات کے بعد شروع ہوئی، جس میں جمعہ کے روز سوئیدا اور شام کے دارالحکومت دمشق کے درمیان شاہراہ پر دروز کے ایک تاجر کا اغوا بھی شامل ہے۔

ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیوں کو باضابطہ ختم کر دیا

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس این اے نے اطلاع دی ہے کہ اب علاقے میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔

پیر کی صبح شام کی وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے اور وزارت دفاع نے "تنازعے کو حل کرنے، جھڑپوں کو روکنے اور سکیورٹی نافذ کرنے" کے لیے "براہ راست مداخلت شروع کرنے" کے لیے فورسز کو تعینات کر دیا ہے۔

وزارت نے کہا کہ "خطرناک اضافے" کی وجہ "متعلقہ سرکاری اداروں کی عدم موجودگی" ہے، جس کی وجہ سے "افراتفری کی حالت اور سکیورٹی کی صورتحال میں مزید خرابی" کو ہوا دی۔

وزارت نے "پرسکون ہونے کے بار بار مطالبات کے باوجود بحران پر قابو پانے میں مقامی برادری کی نااہلی" کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

اس تازہ بدامنی کے سبب سوئیدا میں پیر کے روز ہونے والے ثانوی اسکول کے امتحانات ملتوی کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جبکہ دمشق اور سویدا کے درمیان شاہراہ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

شام: چرچ میں بم کے پیچھے داعش سے الگ ہونے والا گروہ کون ہے؟

شام کی مخدوش سکیورٹی صورتحال

سن 2011 میں شام کی خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے تک سوئیدا اور اس کے آس پاس کا صوبہ دروز کمیونٹی کا گڑھ تھا، جہاں سات لاکھ دروز آباد تھے۔

دو برادریوں کے درمیان تنازعہ دیرینہ ہے، جس کی وجہ سے سوئیدا میں بدو قبائل اور دروز کے دھڑوں کے درمیان وقتاً فوقتا فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھتا ہے۔

گزشتہ برس دسمبر میں جب شامی رہنما بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، نئی حکومت گہرے منقسم اور نسلی اعتبار سے متنوع ملک میں سلامتی برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہے۔

اقلیتی گروہوں کے حقوق کے تحفظ اور اسد کے بعد کی نئی حکومت میں ان کی نمائندگی کے حوالے سے بھی تشویش پائی جاتی ہے۔

جرمنی: شامی ڈاکٹر کو انسانیت کے خلاف جرائم پر عمر قید‍

دروز کے عسکریت پسندوں اور حکومتی فورسز کے درمیان اپریل اور مئی میں ہلاکت خیز جھڑپیں اس وقت ختم ہوئی تھیں، جب مقامی اور مذہبی رہنماؤں نے تشدد پر قابو پانے کے لیے دروز کے جنگجوؤں کو نئی حکومت میں ضم کرنے پر کام کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی۔

جنوبی شام میں اسرائیلی حملوں سے جانی و مالی نقصان

مارچ میں اسد کے فرقے علوی برادری کے سینکڑوں ارکان کے ہلاک ہونے کے بعد فرقہ وارانہ تصادم کے خدشات بھی بڑھ گئے تھے اور نئی حکومت ان تمام مسائل پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ادارت: جاوید اختر