دروز کون ہیں اور اسرائیل ان کی مدد کیوں کرتا ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 18 جولائی 2025 13:20

دروز کون ہیں اور اسرائیل ان کی مدد کیوں کرتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جولائی 2025ء) لبنان، شام، اردن، اسرائیل اور اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں میں آباد دروز برادری خطے کی پیچیدہ سیاست میں خاص مقام رکھتی ہے۔

دروز کون ہیں؟

دروز وہ عرب ہیں جو اسلام کی ہی ایک شاخ سے اخذ کردہ مسلک کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ اپنے عقیدے سے متعلق عمل کے بارے میں ایک حد تک رازداری کو برقرار رکھتے ہیں، یہ فرقہ 11ویں صدی میں سامنے آیا تھا۔

یہ فرقہ اسلام اور دیگر فلسفوں کے عناصر کو بھی اپنے عقیدے میں شامل کرتا ہے اور توحید، تناسخ اور سچائی کی جستجو پر زور دیتا ہے۔

کچھ سخت گیر سنی مسلمان انہیں بدعتی سمجھتے ہیں۔ شام کے عبوری صدر احمد الشرع، ایک اسلام پسند ہیں، جن کا تعلق کبھی القاعدہ سے بھی تھا۔

(جاری ہے)

تاہم انہوں نے اس برادری کو شامی تانے بانے کا حصہ قرار دیا ہے اور جمعرات کے روز ایک تقریر میں ان کے حقوق کے تحفظ کا عزم کیا۔

دروز کہاں کہاں آباد ہیں؟

شام کے دروز جنوب مغرب میں اردن کی سرحد سے متصل سویدا کے علاقے اور مقبوضہ گولان کے قریب صوبہ قنیطرہ کے علاقوں میں مرکوز ہیں۔ وہ دمشق کے نواحی علاقے جرامنہ میں بھی رہائش پذیر ہیں۔ اسرائیل میں دروز بنیادی طور پر شمال اور اس کے مقبوضہ گولان کے علاقے میں رہتے ہیں۔ لبنان میں وہ شوف اور ایلی پہاڑی کے علاقوں میں آباد ہیں اور جنوبی لبنان میں حسبیا جیسے دیگر علاقوں میں رہتے ہیں۔

علاقائی سیاست میں وہ کیسے فٹ ہوتے ہیں؟

اگرچہ دروز ایک چھوٹی اقلیت ہیں، تاہم انہوں نے اکثر ان ممالک کی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا ہے جہاں وہ رہتے ہیں۔

اسرائیل میں دروز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے۔ اسرائیل کے فلسطینی عرب شہریوں کے برعکس، بہت سے دروز عرب اسرائیلی فوج اور پولیس میں غزہ میں جنگ کے دوران خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

اور کچھ تو ایسے اعلیٰ عہدے پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کی آواز کو اسرائیل کی سیاسی قیادت آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتی۔

گرچہ اسرائیل میں زیادہ تر دروز اسرائیلی شہری کے طور پر اپنی شناخت کرتے ہیں، جبکہ مقبوضہ گولان میں رہنے والے 20,000 سے زیادہ اب بھی شامی شہری کے طور پر شناخت کرتے ہیں اور سرحد کے دوسری طرف خاندانوں سے قریبی تعلقات بھی رکھتے ہیں۔

شامی دروز کی مدد کے لیے اسرائیلی دروز نے آواز بلند کی تھی، جس کا سامنا کرتے ہوئے اسرائیلی رہنماؤں نے اس سال شام پر متعدد بار حملہ کیا اور ان حملوں کی وجہ دروز کمیونٹی کی حفاظت بتایا ہے۔

شام میں دروز کی آبادی کا تخمینہ لگ بھگ 10 لاکھ ہے۔ انہوں نے سن 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد بشار الاسد کے خلاف کچھ مظاہرے بھی کیے تھے، تاہم ان کے اور دمشق کے درمیان بہت کم تنازعہ ہوا کیونکہ اسد کی توجہ سنی اکثریتی علاقوں میں بغاوت کو کچلنے کی کوشش پر مرکوز تھی۔

البتہ دسمبر میں اسد کا تختہ الٹنے کے بعد سے، شام میں جو نئی اسلام پسند قیادت ہے ان کے حکام کے ساتھ اختلافات کے سبب کئی بار لڑائی بھڑک چکی ہے۔

اس دوران کچھ دروز رہنماؤں نے دمشق کے ساتھ رہنے پر زور دیا، جبکہ دوسرے گروپ شرع کے خلاف سختی سے سامنے آئے ہیں۔ اس میں خاص طور پر شیخ حکمت الہاجری کا نام سر فہرست ہے، جنہوں نے سرکاری افواج کے خلاف مزاحمت پر زور دیا اور اس ہفتے کے تشدد کے دوران انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت عالمی رہنماؤں سے بھی اپیل کی۔

کچھ دروز اس طرز عمل سے نالاں

لبنان کے ولید جمبلات خطے میں دروز کے سب سے بڑے سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اس تصور کو مسترد کیا ہے کہ اسرائیل شام کے دروز کی حفاظت کر رہا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی تحفظ کے مطالبات کے خلاف خبردار بھی کیا اور شام کے قومی اتحاد پر زور دیا ہے۔

اسرائیل کو مداخلت پر کس بات نے اکسایا؟

جب بشار الاسد اقتدار میں تھے، تو اس دوران اسرائیل نے شام پر اکثر بمباری کی اور وہ ایسا ایران اور ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کے قائم کردہ اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے کرتا تھا، جو باغیوں سے لڑنے میں مدد کرنے کے لیے وہاں تعینات تھے۔

اسرائیل نے شام کی نئی حکومت کو جہادی خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسے جنوبی شام میں فوجیں تعینات کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرحد پر کسی بھی دشمن کی موجودگی سے گریز کرنا چاہتا ہے، جبکہ وہ دروز اقلیت کے تحفظ کا عزم بھی ظاہر کرتا ہے۔

اسرائیلی فوجیوں نے دسمبر سے مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے متصل مزید شامی علاقوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

شام کے عبوری صدر شرع نے جمعرات کو کہا کہ اسرائیل شامیوں کے درمیان تفرقہ کو فروغ دے رہا ہے۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ "ہمارے لوگوں کے اتحاد کو ختم کرنے" کی کوشش کر رہا ہے اور کہا کہ اس نے "ہمارے استحکام کو مسلسل نشانہ بنایا ہے اور سابق حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہمارے درمیان اختلاف پیدا کیا ہے۔"