اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جولائی 2025ء) پاکستان میں شمسی توانائی کا خاموش انقلاب متمول آبادیوں سے لے کر متوسط اور کم آمدنی والے گھرانوں تک پھیل چکا ہے، کیونکہ صارفین بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور بجلی کے طویل کٹوتیوں سے پریشان ہیں۔
پاکستان کے بڑے شہر کراچی کی ایک تنگ گلی میں، شدید گرمی سے لڑتے ہوئے رہائشی، فریدہ سلیم کے معمولی گھر میں اب وہ چیز موجود ہے جس کا انہوں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا، یعنی بلا تعطل بجلی کی فراہمی۔
فریدہ سلیم سولر پینلز کے تنصیب کی لاگت کے متعلق کہتی ہیں’’سولر سے زندگی آسان تو ہو جاتی ہے، لیکن ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ ایک مشکل انتخاب ہے۔‘‘فریدہ سلیم کے گھر کی بجلی گزشتہ سال منقطع کردی گئی تھی کیونکہ انہوں نے 18، 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے بعد بطور احتجاج بل ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
(جاری ہے)
بیوہ اور دو معذور بچوں کی ماں فریدہ نے اپنے زیورات فروخت کیے اور رشتہ داروں سے ایک لاکھ 80 ہزار روپے قرض لے کر دو سولر پینل، ایک سولر انورٹر اور توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بیٹری خریدا۔
جب درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر جاتا ہے، تو بچے فریدہ کے گھر کے دروازے کے نیچے سے آتی ٹھنڈی ہوا لینے کے لیے وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔
سولر پینل اب ایک عام منظر
24 کروڑ آبادی والے پاکستان میں گھروں کے اوپر کھمبوں پر نصب سولر پینلز ایک عام منظر بن چکے ہیں، جس کی تنصیب کی لاگت عام طور پر دو سے پانچ سال کے اندر وصول ہو جاتی ہے۔
’ایمبر‘ نامہ توانائی کے ایک تھنک ٹینک کے مطابق، 2020 میں توانائی کے مجموعی ذرائع میں دو فیصد سے بھی کم حصہ ہونے کے باوجود، 2024 میں شمسی توانائی 10.3 فیصد تک پہنچ گئی۔
تاہم، 2025 کے پہلے پانچ مہینوں میں یہ غیر معمولی تیزی کے ساتھ دوگنا ہو کر 24 فیصد ہو گئی، اور پہلی بار توانائی کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی۔ شمسی توانائی نے گیس، کوئلے اور جوہری بجلی کے ذرائع کے ساتھ ساتھ ہائیڈرو پاور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جس میں گزشتہ کئی دہائیوں میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
نتیجے کے طور پر، پاکستان غیر متوقع طور پر اپنے قابل تجدید توانائی کے ہدف کی طرف تیزی سے بڑھا ہے، جس کا مقصد 2030 تک اسے اپنی توانائی کا 60 فیصد بنانا ہے۔
ایمبر کے چیف تجزیہ کار ڈیو جونز کہتے ہیں کہ پاکستان ’’چھت پر نصب سولر پینلز سے شمسی توانائی کے حصول میں ایک رہنما‘‘ بن چکا ہے۔
شمسی توانائی کے حصول کی دوڑ
عالمی سطح پر ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبات کے ساتھ جو حکومتی سبسڈی میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں، نے انتظامیہ کو بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرنے پر مجبور کیا۔
سن دو ہزار بائیس سے قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آیا اور اس میں 155 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ بجلی کے بل بعض اوقات مکان کے کرایہ سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
رینیوایبلز فرسٹ نامی ادارے کے توانائی امور کے ماہر محمد باسط غوری نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''شمسی توانائی کی یہ دوڑ کسی حکومت کی پالیسی کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ لوگوں نے ہمارے روایتی پاور سسٹم سے واضح طور پر مایوس ہوکر یہ فیصلہ کیا ہے، جو بنیادی طور پر بہت ساری ناکامیوں کا شکار ہے۔
‘‘پاکستان شمسی توانائی کا اپنا زیادہ تر سامان ہمسایہ ملک چین سے حاصل کرتا ہے، جہاں قیمتوں میں تیزی سے کمی آئی ہے، جس کی بڑی وجہ زیادہ پیداوار اور تکنیکی ترقی ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی گرڈ کے صارفین میں کمی نے حکومت کو پریشان کر رکھا ہے جس پر پاور سیکٹر کا آٹھ ارب ڈالر کا قرض ہے۔
شمسی توانائی میں اضافہ حکومت کے لیے پریشان کن کیوں؟
پاکستان مہنگی گیس کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جسے وہ قومی توانائی فراہم کنندگان کو نقصان پر فروخت کرتا ہے۔
یہ آزاد بجلی پیدا کرنے والوں (آئی پی پیز)، جن میں سے کچھ چین کی ملکیت ہیں، کے ساتھ طویل معاہدوں میں بھی بندھا ہوا ہے، جن کے لیے اسے حقیقی طلب سے قطع نظر ایک مقررہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔مارچ میں ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شمسی توانائی میں اضافے نے ''گرڈ صارفین پر غیر متناسب مالی بوجھ پیدا کیا ہے، جس سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے اور توانائی کے شعبے کی پائیداری کو نقصان پہنچا ہے۔
‘‘گزشتہ ماہ، حکومت نے تمام درآمد شدہ شمسی توانائی پر 10 فیصد نیا ٹیکس عائد کیا، جبکہ توانائی کی وزارت نے صارفین سے اضافی شمسی توانائی خریدنے کی شرح کو کم کرنے کی تجویز دی ہے۔
شمسی توانائی کی طرف منتقلی کا سبب
تجزیہ کار جونز کا کہنا ہے کہ ''گھریلو شمسی توانائی کا عروج بجلی کے بحران کا جواب تھا، اس کی وجہ نہیں‘‘۔
انہوں نے گرڈ کے مسائل سے بھی خبردار کیا، جس میں شام کے وقت ہونے والا اضافہ بھی شامل ہے جب شمسی توانائی استعمال کرنے والے جو توانائی ذخیرہ نہیں کر سکتے وہ روایتی بجلی پر واپس آ جاتے ہیں۔کراچی کے رہائشی ارسلان عارف اپنی آمدن کا ایک تہائی اپنے گھر کے بجلی کے بلوں پر خرچ کرتے تھے۔ لیکن اب انہوں نے تقریباً 14 لاکھ روپے میں 10 کلو واٹ کا سولر پینل خرید لیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ قومی گرڈ ارسلان عارف جیسے ادائیگی کرنے والے صارفین کو کھو رہا ہے۔ارسلان نے بتایا کہ ''پہلے، بجلی کے آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا، میں ہمیشہ بجلی کی بندش سے پریشان رہتا تھا۔‘‘ لیکن اب انہیں اپنے کیٹرنگ کے کاروبار کو جاری رکھنے کی 'آزادی اور یقین‘ ہے۔
سیالکوٹ میں، حفاظتی ملبوسات تیار کرنے والے حماد نور نے 2023 میں اپنے کاروبار کو شمسی توانائی پر منتقل کیا، اور اسے اپنا 'بہترین کاروباری فیصلہ' قرار دیا۔
انہوں نے 18 ماہ میں سرمایہ واپس حاصل کر لیا اور اب ہر ماہ 10 لاکھ روپے روپے بچا رہے ہیں۔حماد نور کی دوسری فیکٹری کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کی لاگت نئے حکومتی ٹیکس کے تحت اب تقریباً 15 لاکھ روپے بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'سولر پینلز پر عائد کردہ ٹیکس غیر منصفانہ ہے اور بڑی کاروباری کمپنیوں کو چھوٹے کاروباریوں پر فائدہ دیتا ہے۔‘ حماد نور کے مطابق ''پالیسی ساز عوام اور کاروباری برادری سے مکمل طور پر منقطع نظر آتے ہیں۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین