اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جولائی 2025ء) سماجی ماہرین کے مطابق پاکستان میں یہ رجحان ایک 'بدمعاشی کلچر‘ کو فروغ دے رہا ہے، جس میں طاقت، انتقام اور دھونس کو 'ہیرو ازم‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں کے نوجوان اسے اپنی شناخت، فخر اور مقبولیت کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔
سوشل میڈیا سے روایتی دشمنیوں کا بدلتا انداز
ماہر سماجیات اور متعدد کتابوں کے مصنف احمد اعجاز ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”خاندانی دشمنیاں پاکستانی معاشرے کا حصہ رہی ہیں، جو زمین، غیرت یا ذات پات کے تنازعات سے جنم لیتی ہیں۔
لیکن اب سوشل میڈیا نے ان میں تفریح اور نمائش کا عنصر شامل کر دیا ہے۔ پہلے اسلحے کی نمائش یا تشدد کو عزت سے نہیں جوڑا جاتا تھا لیکن اب ٹک ٹاک پر اسلحہ لہرانا فخر کا باعث بن گیا ہے۔(جاری ہے)
"
ان کے مطابق، ”پہلے دشمنیاں چند خاندانوں تک محدود ہوتی تھیں لیکن اب نوجوان انفرادی طور پر اس کلچر میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ شہرت، غلبے اور طاقت کی دوڑ ہے، جس میں دیہی نوجوان سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔
"پنجاب کے گاؤں ہڈالی کے نمبردار احمد خان کہتے ہیں، ”پہلے دشمنیاں خاندانی ہوتی تھیں لیکن اب سوشل میڈیا نے انہیں انفرادی بنا دیا۔ اب والدین کو علم نہیں ہوتا اور ان کا بیٹا ٹک ٹاک پر دشمن بنا کر بیٹھا ہے۔ پہلے جیل جانے والوں کی ملاقات ایک مسئلہ تھی، لیکن اب موٹر سائیکل پر جیل جا کر ٹک ٹاک ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ اسلحہ اور تشدد کو روزمرہ زندگی کا حصہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
"ٹک ٹاک پر اسلحے کی نمائش اور دیہی مقبولیت
پنجاب کے گاؤں بوتالہ سے تعلق رکھنے والے ٹک ٹاکر حافظ فخر کہتے ہیں، ”پانچ سال پہلے جب میں نے ٹک ٹاک شروع کیا، تو کبھی کبھار کوئی ویڈیو نظر آتی تھی، جس میں مخالفین کو للکارا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ رجحان عام ہوا اور ایک وقت آیا کہ ٹک ٹاک دشمنیوں اور دھمکیوں سے بھر گیا۔"
کیا گالی دینا پنجاب کا کلچر ہے؟
وہ بتاتے ہیں کہ اسلحے کی نمائش کئی مراحل سے گزری، ”شروع میں کھلے عام ہتھیار دکھائے جاتے تھے لیکن جب ٹک ٹاک نے پالیسی سخت کی تو ویڈیوز میں چالاکی شروع ہوئی، جیسے بندوق کو کپڑے میں لپیٹ کر دکھانا۔
اب پولیس کی سختی سے ایسی ویڈیوز کم ہو رہی ہیں۔"نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈیجیٹل کلچر کی محقق زنیرہ چوہدری کہتی ہیں، ”دیہی علاقوں میں سوشل میڈیا کا مطلب ہی ٹک ٹاک ہے۔ دیگر پلیٹ فارمز جیسے ایکس، فیس بک یا انسٹاگرام شہری اور تعلیم یافتہ طبقے کے لیے ہیں لیکن ٹک ٹاک کی سادگی دیہی نوجوانوں کو اپنی بات براہ راست کہنے کا موقع دیتی ہے۔
یہ ان کے لیے طاقت اور شہرت دکھانے کا اسٹیج بن گیا ہے۔"بھارتی پنجابی موسیقی اور پاکستانی ٹک ٹاکرز
ٹک ٹاک ویڈیوز میں اکثر بھارتی پنجابی گلوکار سدھو موسے والا کے گانے پس منظر میں سنائی دیتے ہیں، جن میں بندوق، انتقام اور ذات پر فخر کے موضوعات ہوتے ہیں۔ حافظ فخر کہتے ہیں، ”ہماری پنجابی بھارتی پنجابی سے تھوڑی مختلف ہے لیکن سدھو کے گانوں کی آواز ویڈیوز میں جوش پیدا کرتی ہے اور لائکس بڑھاتی ہے۔
"زنیرہ چوہدری کہتی ہیں، ”سدھو موسے والا کے گانوں نے ٹک ٹاک کلچر کا حصہ بن کر اسے مزید پھیلایا ہے۔ یہ گانے دیہی نوجوانوں کے لیے دشمنی اور طاقت کو گلیمرائز کرتے ہیں۔"
پنجابی فلموں کو ’گنڈاسا کلچر‘ لے ڈوبا
احمد اعجاز ایک اہم فرق کی نشاندہی کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ”بھارت میں کسان تحریک کے دوران ٹک ٹاک پر نوجوانوں نے سماجی اور سیاسی مسائل پر آواز اٹھائی لیکن پاکستان کے دیہی نوجوان سیاسی مسائل سے کم جڑے ہیں۔
یہ ہمارے کمزور سیاسی عمل کی عکاسی کرتا ہے۔"پولیس کی کارروائیاں اور رجحان کی روک تھام
حافظ فخر کے مطابق، ”اب پولیس کی سختی سے ٹک ٹاکرز خوفزدہ ہیں۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے فعال ہونے سے ایسی ویڈیوز کم ہوئی ہیں۔ اگر یہی سختی جاری رہی تو یہ رجحان ختم ہو سکتا ہے۔"
تاہم احمد اعجاز کہتے ہیں، ”پولیس اس رجحان کو دبا سکتی ہے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ نوجوانوں میں تشدد کو گلیمرائز کرنے کی وجہ کیا ہے؟ معاشرے میں وہ کون سا خلا ہے، جسے پُر کرنے کے لیے نوجوان تشدد کو گلیمرائز کرتے ہیں؟"
زنیرہ چوہدری کہتی ہیں، ”ہمارے معاشرے میں ہیرو کا مطلب 'بندوق والا‘ بن گیا ہے۔
پولیس آن لائن تشدد روک سکتی ہے لیکن کیا اس سے نوجوانوں کے رویے بدلیں گے؟"ماہرین کے مطابق 'بدمعاشی کلچر‘ کی جڑیں معاشرتی اور معاشی خلا میں ہیں، جس کے خاتمے پر توجہ دینا ضروری ہے۔
ادارت: امتیاز احمد