پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی کا اجلاس، شوگر ملوں کا حکومت سے انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ

اتوار 20 جولائی 2025 20:20

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جولائی2025ء) پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی کا اجلاس یہاں منعقد ہوا جس میں تمام شوگر ملوں نے حکومت سے انڈسٹری کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔ترجمان نے بتایا کہ ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شوگر سیکٹر کی ڈی ریگولیشن پر غور کرے جیسا کہ گنے کے معاملے میں صوبوں نے کیا ہے۔

شوگر انڈسٹری ٹیکسٹائل کے بعد پاکستان میں دوسری بڑی زرعی صنعت ہے۔ کرشنگ سیزن کے دوران یہ زراعت، ٹرانسپورٹ، ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹوں میں 1000بلین کی براہ راست اور بالواسطہ کاروباری سرگرمیاں پیدا کرتا ہے۔ یہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں تقریبا 225بلین روپے ادا کرتی ہے اور ہماری قومی معیشت کو 4بلین امریکی ڈالر مالیت کا درآمدی متبادل فراہم کرتی ہے۔

(جاری ہے)

ایسوسی ایشن کی جانب سے کہا گیا کہ شوگر انڈسٹری گنے کے پھوک کے ذریعے پیدا کردہ اپنی توانائی کو استعمال کرتی ہے جس کے ذریعے سٹیل کی ایک الائیڈ انڈسٹری بھی قائم ہو چکی ہے اور پیدا شدہ بجلی نیشنل گرڈ کو بھی برآمد کی جا رہی ہے۔ایسوسی ایشن کی جانب سے مزید کہا گیا کہ پاکستان میں 2009میں ایتھنول کی پالیسی بنائی گئی جسے بعد میں بند کر دیا گیا، اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

بائیو ایتھانول کی موجودہ صلاحیت ملک میں پٹرول کی کل کھپت کا 7فیصد پوراکرنے کیلئے کافی ہے۔دو انتہائی اہم زرعی شعبے چاول اور مکئی مکمل ڈی-ریگولیٹڈہیں اور اس کے بعد صرف چاول کی برآمدات سے تقریبا 5 بلین ڈالر حاصل ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں چاول اور مکئی کی درآمد اور برآمد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔دونوں شعبے آزاد معیشت کے اصولوں پر کام کرتے ہیں اور بہترین کام کر رہے ہیں۔

چاول اور مکئی کے کاشتکاروں کو بین الاقوامی قیمتیں ملتی ہیں جس سے تحقیق اور ترقی کی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور بہتر پیداوار حاصل ہوتی ہے۔پاکستان میں گنے کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ اور اسکی مٹھاس میں بہتری کیلئے گنے کی نئی اقسام تیار کرنے کے حوالے سے بہت کم کوششیں کی گئی ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ شوگر سیکٹر کی ڈی۔

ریگولیشن کے حوالے سے مستقل پالیسی اپنائے تاکہ یہ چینی کی درآمدات سے رکاوٹ، مجموعی کاروباری سرگرمیوں، روزگار، ٹیکس ریونیو اور فاضل چینی کی باقاعدہ برآمدات سے زرِمبادلہ میں اضافہ کا ذریعہ بنا رہے۔شوگر انڈسٹری نے پہلے بھی حکومت کے ساتھ کئی میٹنگز اور 17جولائی کو شوگر ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ میں بھی انڈسٹری کو ڈی۔ریگولیٹ کی درخواست کی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے شوگر سیکٹر کی ڈی ریگولیشن پر کمیٹی کی تشکیل ایک خوش آئند قدم ہے اور امید ہے کہ دیگر زرعی شعبوں کی طرح شوگر سیکٹر کو بھی ملکی ترقی کیلئے اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔