بلوچستان کے علاقے ڈغاری میں قتل ہونے والوں کا آپس میں کوئی ازدواجی رشتہ نہیں تھا، میر سرفراز بگٹی

پیر 21 جولائی 2025 20:21

بلوچستان کے علاقے ڈغاری میں قتل ہونے والوں کا آپس میں کوئی ازدواجی ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 جولائی2025ء)وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے علاقے ڈغاری میں قتل ہونے والوں کا آپس میں کوئی ازدواجی رشتہ نہیں تھا، دونوں پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کے بچے بھی تھے، کسی کے دبائومیں نہیں آتا واقعے میں جو بھی ملزمان ملوث ہیں ان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی، علاقے کا اسپیشل برانچ کا ڈی ایس پی معطل کردیا گیا ہے،ایک سال کے دوران 300خطرناک دہشتگردہلاک کیے ہیں۔

یہ بات انہوں نے پیر کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں صوبائی وزراء ،ارکان اسمبلی راحیلہ حمید خان درانی،مینہ مجید، حاجی علی مدد جتک، ربابہ بلیدی، محمد خان طور اتمانخیل ،ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ وقبائلی امور بلوچستان محمد حمزہ شفقات، کمشنر کوئٹہ ڈویژن شاہ زیب کاکڑ بھی موجود تھے ۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ڈغاری میں پیش آنے والا واقعہ انسانیت کا قتل اور جہالت کی انتہاء ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہورہا ہے اور لوگ اس واقعے کی اصل حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں، سوشل میڈیا پر ایسی خبریں چل رہی ہیں کہ یہ نیا شادی شدہ جوڑا تھا لیکن وہ سب کو بتادیں کہ ان دونوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں تھا، اس واقعے میں جس لڑکی کا قتل ہوا ہے اس کے پانچ بچے ہیں اور اس کے شوہر کا نام نور ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی صورت متاثرین پر الزام تراشی نہیں کریں گے قانون کے مطابق مقتولین کو انصاف فراہم کیاجائیگا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ قانون کسی کے بھی قتل ک اجازت نہیں دیتا متعلقہ علاقے کے ڈی ایس پی اسپیشل برانچ کو غفلت برتنے پر معطل کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب تک واقعہ میں ملوث ایک قبائلی سردار سمیت 11افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے معاشرے میں قبائلی سردار کی عزت ہوتی ہے مگر ہم نے ایک منٹ کی بھی تاخیر کیے بغیر کاروائی کی ہے انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر متاثرہ خاندانوں کی جانب سے کی جاتی ہے تاہم وہ مدعی بننے کو تیار نہیں تھے جس پر حکومت نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے اب جب پولیس تفتیش کرنے کے لیے جارہی ہے تو مرد سارے بھاگ چکے ہیں، جب کہ خواتین گھروں سے باہر نکل کر پولیس پر پتھراؤ کرتی ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطابق ان دونوں کا بے دردی سے قتل کیا گیا جو کہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے، اس بات کی نہ معاشرہ اجازت دیتا ہے نہ ہی حکومت اجازت دیتی ہے اور حکومت ملزمان سے تھوڑی سی بھی نرمی نہیں برتے گی۔صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن ایک سال کے دوران صوبے میں 300انتہائی مطلوب دہشتگرد ہلاک کیے گئے ہیں گزشتہ حکومت میں پانچ سے چھ سال دہشتگردوں کو بلوچستان میں بھی پھلنے پھلونے دیا گیا جس کے بعد انہوں نے اپنی حکمت عملی سمیت دیگر معاملات کو مضبوط کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی سافٹ ٹارگٹ ڈھونڈتے ہیں چند منٹ میں کاروائی کر کے ویڈیو بنا تے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے قبضہ حاصل کیا ہے یہ دہشتگرد کسی عسکری تنصیب یا چھا ئونی پر کیوں نہیں آتے ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ شب سوراب میں 7منٹ میں فورسز نے جوابی کاروائی جس کے بعد ہشتگردزخمی ہو کر بھاگ نکلے ۔انہوں نے کہا کہ جلد ہی امن و امان پر علیحدہ پریس کانفرنس بھی کرونگا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جن سردار وں نے ڈغاری واقعہ پر کاروائی پر بیان دیا ہے اسکا جواب نہیں دونا میں کسی کے دبائو میں نہیں آتا جو قانون و آئین کا راستہ ہے وہ ہم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ کئی کئی دن کے دھرنوں، سڑکوں کی بندش سمیت دیگر وعدوں پر بغیر کسی دبائو میں آکر کاروائی کی اور عوام کو ریلیف دیا ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین ارکان کابینہ کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی نشاندہی کریں ۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ روز سیکورٹی فورسز نے بروقت کاروائی کر کے قلعہ عبداللہ میں مورچہ بند قبائل کے درمیان لڑائی رکوائی اگر حکومت ایسا نہ کرتی تو اموات کی تعداد بڑھ سکتی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ کاروائی کرنے پر اے این پی کے پارلیمانی لیڈر نے میرا شکریہ ادا کیا ہے البتہ اے این پی کے صوبائی صدر کا بیان حیران کن ہے ۔ ان کی اپنی جماعت نے بروقت کاروائی پر سوشل میڈیا پر شکریہ اداکیا ہے ۔