موسمیاتی تبدیلی انسانیت کے لیے سنگین خطرہ ہے، احسن اقبال

منگل 22 جولائی 2025 13:52

موسمیاتی تبدیلی انسانیت کے لیے سنگین خطرہ ہے،  احسن اقبال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 جولائی2025ء) وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک خوفناک حقیقت بن چکی ہے، جو پوری انسانیت کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔منگل کو موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی انصاف کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ متاثرہ ترقی پذیر ممالک خود عالمی طاقتوں سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کریں، کیونکہ اب مزید خاموشی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ100 ارب ڈالر سالانہ متاثرہ ممالک کے لیے خیرات نہیں بلکہ ان کا جائز حق ہے، جو ترقی یافتہ دنیا کے ماحولیاتی وعدوں کی بنیاد ہے۔

(جاری ہے)

گلوبل ساؤتھ سے ہمیشہ ڈو مور کا مطالبہ کیا جاتا رہا، اب وقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی ڈو مورکرے۔ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی وعدے پورے کریں اور متاثرہ ممالک کو مالی و تکنیکی مدد فراہم کریں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 7 ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جوتیزی سے پگھل رہے ہیں، جن کی شرح 60 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔یہ صورتحال دریائے سندھ کے آبی نظام کے لیے سنگین خطرہ ہے، جو ملک کی 90 فیصد زرعی پیداوار کا دار و مدار ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ2022 کے تباہ کن سیلاب موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا کھلا ثبوت تھے، جنہوں نے ملکی معیشت، زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جانوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں غیر معمولی موسم، بارشوں کی شدت، سیلاب، خشک سالی اور غذائی بحران جیسے نئے خطرات جنم لے رہے ہیں۔وزیر منصوبہ بندی نے بتایا کہ حکومتِ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کو اپنی قومی حکمتِ عملی اور ’’فائیو ایز‘‘ پالیسی کا بنیادی ستون بنا دیا ہے، تاکہ ماحولیاتی تحفظ ،پائیدار ترقی ،قابلِ تجدید توانائی ،آبی تحفظ اور موسمیاتی خطرات سے بچاؤکے لیے موثر اقدامات کیے جا سکیں۔

وفاقی وزیر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ماحولیاتی بحران کے حل کے لیےہم مل کر فیصلے کریں، الفاظ سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان جیسے متاثرہ ممالک کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے مالی مدد، تکنیکی معاونت اور انصاف کی اشد ضرورت ہے۔