اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جولائی 2025ء) بھارت کے کیوبا میں سفیر، تھونگکومانگ آرمسٹرانگ چانگسان، ایک پیچیدہ صورتحال میں پھنس گئے ہیں۔ ان کی دو بیویاں ہیں، اور ہر ایک سے ایک بیٹی ہے، یہ سب قبائلی رواج اور چرچ میں ہونے والی شادی کے قوانین کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔ یہ خبر آج متعدد بھارتی اخبارات اور دیگر میڈیا ذرائع میں شائع ہوئی ہے۔
یہ کہانی 1994 میں شروع ہوئی، جب چانگسان نے نیکول چانگسان سے چرچ میں مسیحی شادی ایکٹ کے تحت شادی کی۔ کئی سال بعد انہوں نے آسام کے ڈِما ہاساؤ ضلع میں سونگپیجان گاؤں کے بزرگوں کے ذریعے نیکول کو روایتی طور پر طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔
نیکول نے اس کے خلاف گوہاٹی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
(جاری ہے)
2022 میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ چرچ میں ہونے والی ایسی شادی کو گاؤں کے بزرگ ختم نہیں کر سکتے۔
صرف عدالت ہی ایسی شادی کو ختم کر سکتی ہے۔ اس لیے قانونی طور پر ان کی پہلی شادی برقرار رہی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے دو بیویاں ہو گئیں۔بھارت میں مسلمانوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو بیک وقت ایک سے زائد بیوی رکھنے کی قانوناﹰ اجازت نہیں ہے۔ اور ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ سرکاری ملازمین کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔
جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو جسٹس سوریا کانت کی سربراہی والی بینچ نے واضح طور پر کہا، ''ہمیں اس شخص کے لیے ذرا بھی ہمدردی نہیں ہے۔‘‘
ججوں نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا اور کہا کہ نیکول کو سماجی اور ذہنی طور پر اذیت برداشت کرنی پڑی۔
عدالت نے کیا کہا؟
نیکول خود عدالت میں پیش ہوئیں اور بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو اکیلے پالا اور شوہر سے بہت کم مدد ملی۔
انہوں نے چانگسان پر الزام لگایا کہ وہ ان کی بیٹی، جو اب 29 سال کی ہے اور بنگلورو میں کام کرتی ہے، کو ماں سے دور کرنے کے لیے ذہنی دباؤ ڈالتے رہے۔نیکول نے عدالت سے اپیل کی کہ وہ ان کی عزتِ نفس کی حفاظت کرے، اور بتایا کہ چانگسان نے خاموشی سے قبائلی طریقے سے ان سے علیحدگی اختیار کی اور انہیں اطلاع دیے بغیر دوسری شادی کر لی۔
چانگسان کی نمائندگی کرنے والی وکیل مینکا گروسوامی نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ بیٹی کی ضروریات کا خرچ اٹھایا، لیکن عدالت اس سے مطمئن نہیں ہوئی۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ بیٹی اس معاملے کو سلجھانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ عدالت نے سفیر کو مشورہ دیا کہ وہ نیکول کے بنگلورو میں بیٹی سے ملنے کا انتظام کریں، جس میں ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور تین لاکھ روپے کی عبوری ادائیگی شامل ہو۔
اب سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ نیکول اپنی زندگی کو نئے سرے سے تعمیر کریں، اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ غور کریں کہ مستقبل میں کون سی چیز انہیں سکون دے سکتی ہے۔
یہ کیس دلچسپ کیوں ہے؟
انڈین فارن سروس کے انیس سو ستانوے بیچ کے افسر آرمسٹرانگ چانگسان مارچ 2024 میں جمہوریہ کیوبا میں بھارت کے سفیر مقرر کیے جانے سے قبل وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ کوکی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آسام کی سب سے اعلیٰ قبائلی اتھارٹی، کوکی انپی، نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ چرچ کی شادی کو قبائلی قانون کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا، اور زور دیا کہ کسی بھی جوڑے کو زبردستی دوبارہ اکٹھا ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
اس کیس نے نہ صرف ایک اعلیٰ سفارت کار کی ازدواجی زندگی کو قانونی کٹہرے میں لا کھڑا کیا بلکہ بھارت میں قبائلی رسم و رواج اور ملکی قوانین کے درمیان تصادم کو بھی نمایاں کیا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین