سندھ میں 16 لاکھ سے زائد بچے محنت مشقت پر مجبور،سروے رپورٹ

ہفتہ 2 اگست 2025 21:24

سندھ میں 16 لاکھ سے زائد بچے محنت مشقت پر مجبور،سروے رپورٹ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 اگست2025ء) سندھ میں چائلڈ لیبر سے متعلق 28سال بعد ہونے والے جامع سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سندھ چائلڈ لیبر سروے 2022۔2024 کی چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں اب بھی16 لاکھ سے زائد بچے محنت مشقت جیسے مسائل میں گرفتار ہیں۔ہفتہ کو جاری اعلامیہ کے مطابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ نے کہا ہے کہ سروے محکمہ محنت سندھ، یونیسیف اور بیورو آف اسٹیٹکس کے اشتراک سے مکمل کیا گیا جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 16لاکھ سے زائد بچے چائلڈ لیبر میں مبتلا ہیں، جن میں سے نصف سے زائد 10سے 17سال کی عمر کے وہ بچے ہیں جو خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں جہاں طویل اوقات، شدید موسم اور غیر محفوظ آلات ان کا مقدر بن چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق محنت کش بچوں کی اسکول حاضری کی شرح صرف 40.6 فیصد ہے جبکہ وہ بچے جو چائلڈ لیبر کا شکار نہیں، ان کی حاضری 70.5 فیصد ہے اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، خاص طور پر 14سے 17سال کی لڑکیوں میں جو اوسطا ًہفتے میں 13.9گھنٹے گھریلو کاموں میں مشغول رہتی ہیں اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ان کے لیے مزید مشکل ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل محکمہ محنت سندھ محمد علی شاہ نے کہا کہ سروے رپورٹ حکومت سندھ کو پیش کر دی گئی ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ 1996کے مقابلے میں صوبے میں چائلڈ لیبر کی مجموعی شرح میں تقریبا ً50 فیصد کمی آئی ہے تاہم اب بھی کئی اضلاع میں صورت حال تشویشناک ہے جیسے قمبر شہداد کوٹ میں چائلڈ لیبر کی شرح سب سے زیادہ 30.8 فیصد، تھرپارکر میں 29 فیصد، شکارپور میں 20.2 فیصد، اور ٹنڈو محمد خان میں 20.3 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ کراچی میں سب سے کم 2.38 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر غربت سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور غریب گھرانوں میں سے 33.7فیصد نے کم از کم ایک ایسا بچہ ہونے کی تصدیق کی جو کام پر جاتا ہے جبکہ 20.1فیصد محنت کش بچوں میں ڈپریشن کی علامات پائی گئیں جو کہ غیر محنت کش بچوں کے مقابلے میں تقریبا ًدوگنا ہیں۔ حکومت کو اس رپورٹ کی روشنی میں فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ چائلڈ لیبر کے خاتمے اور بچوں کے محفوظ، تعلیم یافتہ اور روشن مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔