خواتین اور خاندانوں کو جہیز کے معاشی بوجھ اور سماجی دباؤ سے نجات دلانا لازم ہے،ام لیلی اظہر

منگل 5 اگست 2025 17:14

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اگست2025ء) نیشنل کمیشن فار سٹیٹس آف ویمن (این سی ایس ڈبلیو) کی چیئرپرسن ام لیلی اظہر نے کہا کہ جہیز کا نقصان دہ رواج پاکستان میں صنفی بنیادوں پر تشدد اور معاشی ناانصافی کی جڑوں میں پیوست ہے،خواتین اور خاندانوں کو جہیز کے معاشی بوجھ اور سماجی دباؤ سے نجات دلانا لازم ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے خاندانی قوانین کے جاری نظرثانی عمل کے تحت، قومی کمیشن برائے وقار نسواں (این سی اسی ڈبلیو) نے جہیز اور دلہن کے تحائف (پابندی) ایکٹ 1976 پر دوسرا قومی مشاورتی اجلاس میں کیا۔

یہ اجلاس قانونی اصلاحات کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جو قومی اسمبلی کی جینڈر مین سٹریمِنگ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کی ہدایات اوراین سی ایس ڈبلیو ایکٹ 2012 کے تحت کمیشن کے دائرہ اختیار کے مطابق منعقد کیا گیا۔

(جاری ہے)

اجلاس کی صدارت محترمہ اُمِ لیلیٰ اظہر، چیئرپرسن این سی اسی ڈبلیو نے کی، اور اس میں متعلقہ وزارتوں اور اداروں کے کلیدی نمائندگان نے شرکت کی۔

شرکاء نے قانون کا دفعہ وار جائزہ لیا۔جہیز" اور "دلہن کے تحائف" کی تعریف اور دائرہ کار قانون کے تحت مالی و غیر مالی پابندیاں،شکایات درج کرنے اور سزاؤں کے اطلاق کے لیے قانونی طریقہ کار،قوانین کے نفاذ میں حائل رکاوٹیں اور فوری ترامیم اور مختلف دوسرے نکات پر تفصیلی مشاورت کی ۔اس موقع پر چیئرپرسن ام لیلی اظہر نے کہا کہ جہیز کا نقصان دہ رواج پاکستان میں صنفی بنیادوں پر تشدد اور معاشی ناانصافی کی جڑوں میں پیوست ہے۔

اگرچہ 1976 کا قانون ان رسوم کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا، تاہم اس کا مؤثر نفاذ بدقسمتی سے ممکن نہیں ہو سکا۔ ہم تمام متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تجویز کردہ ترامیم پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائیں اور اس قانون کو جدید سماجی و ثقافتی حقیقتوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہم آہنگ کریں۔ خواتین اور خاندانوں کو جہیز کے معاشی بوجھ اور سماجی دباؤ سے نجات دلانا لازم ہے۔

کوئی بھی ثقافتی یا سماجی جواز انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ یہ قانون محض علامتی نہ رہے، بلکہ حقیقی تبدیلی کا ذریعہ بنے۔اجلاس کا اختتام اسٹیک ہولڈرز سے تحریری آراء کی درخواست پر ہوا تاکہ ان کی آراء کی روشنی میں شواہد پر مبنی، مؤثر اور قابلِ عمل قانونی ترامیم کا مسودہ تیار کیا جا سکے۔