بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کے قانونی حقوق، جائیدادیں اور سرمایہ کاری محفوظ ہیں، نیب کی یقین دہانی

تمام رہائشی اور مالکان جائیداد کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی منفی اور شرانگیز معلومات یا خبر پر دھیان نہ دیں اور سکون کے ساتھ اپنی معمولات زندگی جاری رکھیں؛ اعلامیہ

Sajid Ali ساجد علی پیر 11 اگست 2025 14:26

بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کے قانونی حقوق، جائیدادیں اور سرمایہ کاری محفوظ ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 11 اگست 2025ء ) قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کے قانونی حقوق، جائیدادیں اور سرمایہ کاری محفوظ ہیں۔ نیب اعلامیہ کے مطابق ان تمام لوگوں کو جو کہ بحریہ ٹاؤن کے رہائشی ہیں یا جنہوں نے وہاں پر جائیدادیں خرید رکھی ہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کے تمام قانونی حقوق، جائیدادیں اور سرمایہ کاری محفوظ ہیں، کچھ مخصوص عناصر کی طرف سے پھیلائی جانے والی خبریں صرف مذکورہ لوگوں کو پریشان کرنے اور اس کی آڑ میں ان کی جائیدادوں کو کم قیمت پر خریدنے کی ایک گہری سازش ہے- قومی احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ مذکورہ رہائشی اور مالکان بھی نیب کی نظر میں وہ متاثرین ہیں جن کے ساتھ دھوکہ دہی اور فراڈ کیا گیا ہے اور نیب ان کے حقوق کا تحفظ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا، بحریہ ٹاؤن کے خلاف جاری کارروائیاں ان کے مالکان اور ان کی جائیدادوں تک محدود ہیں، نیب نے اس بات کا تہیہ کیا ہوا کہ جب تک یہ لوگ قانون کے آگے پیش ہو کر لوٹی ہوئی رقوم واپس نہیں کرتے، نیب اپنی قانونی کارروائیاں بغیر کسی دباؤ کے جاری رکھے گا، نیب کی طرف سے تمام رہائشی اور مالکان جائیداد کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی منفی اور شرانگیز معلومات یا خبر پر دھیان نہ دیں اور سکون کے ساتھ اپنی معمولات زندگی جاری رکھیں۔

(جاری ہے)

دوسری طرف سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹی نیلامی کے خلاف حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی، سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن پراپرٹیز نیلامی کیخلاف اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، دوران سماعت جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’یہ تو متفرق درخواست ہے مرکزی اپیلیں تو نہیں لگیں‘، جس پر بحریہ ٹاؤن وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ’مجھے بھی آدھی رات میں بتایا گیا تھا کہ آپ کا کیس لگ گیا ہے، یہ تو آپ آفس سے پوچھیں کہ مرکزی اپیلیں کیوں نہیں لگائیں‘۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’کیس کی سماعت اگلے ہفتے رکھ دیتے ہیں‘، جس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ ’آپ یہ حکم امتناع تو دے دیں‘، جس پر جسٹس امین الدین نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا، بعد ازاں کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ ’آج صرف متفرق درخواست لگی ہے، مرکزی اپیلیں فکس نہیں ہوئیں، نیب ریفرنسز کی کاپیاں بھی اپیلوں کے ساتھ لگائی جائیں تاکہ اصل غبن واضح ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ملزمان نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کی تھی اور 8 پراپرٹیز دی تھیں، اب ملزم کہتا ہے کہ پلی بارگین دباؤ میں تھی اور چیئرمین نیب کو اسے ختم کرنے کی درخواست دی گئی ہے، پلی بارگین ختم ہونے کے بعد کیس پہلی سٹیج پر آ گیا، نیب جائیدادوں کی نیلامی کی طرف کیسے گیا؟ پلی بارگین ختم ہونے کے بعد ریفرنس پر ٹرائل ہوگا اور سزا پر ہی پراپرٹیز ضبط ہوں گی‘۔

وکیل بحریہ ٹاؤن فاروق ایچ نائیک نے مؤقف اپنایا کہ ’پلی بارگین ختم کرنے کی درخواست اور نیب ریفرنس دونوں پینڈنگ ہیں‘، جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’سٹے کا فیصلہ یک طرفہ نہیں ہوگا، دوسری سائیڈ کو سن کر کیا جائے گا‘، اس کے ساتھ ہی عدالت نے وکیل کو ملک ریاض و بحریہ ٹاؤن کیخلاف ریفرنسز کی نقول جمع کرانے کا حکم دیا اور سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی پراپرٹی نیلامی کے خلاف حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 اگست تک ملتوی کردی۔