شام: حالیہ فرقہ وارانہ تصادم ممکنہ جنگی جرائم، یو این تحقیقاتی کمیشن

یو این جمعہ 15 اگست 2025 01:15

شام: حالیہ فرقہ وارانہ تصادم ممکنہ جنگی جرائم، یو این تحقیقاتی کمیشن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 اگست 2025ء) شام کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے بتایا ہے کہ مارچ میں ملک کے ساحلی علاقوں میں ہونے والے تشدد کے دوران ممکنہ طور پر منظم جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔

کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ ماہ پہلے لاطاکیہ اور طرطوس میں فرقہ وارانہ بنیاد پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں لوگوں کو قتل کرنے سمیت کئی طرح کے غیرانسانی افعال کے بارے میں مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

اس دوران عبوری حکومت کی فورسز اور سابق صدر بشارالاسد کے حامیوں نے شہریوں کے خلاف جنگی جرائم کیے۔

Tweet URL

ان واقعات میں تقریباً 1,400 لوگوں کی ہلاکت ہوئی تھی جن میں بڑی تعداد عام لوگوں کی بتائی گئی ہے اور بنیادی طور پر ان میں علاوی برادری کو نشانہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)

شام پر طویل عرصہ حکومت کرنے والے بشارالاسد کا تعلق بھی اسی فرقے سے تھا۔

کمیشن کے سربراہ پاؤلو سرجیو پنہیرو نے کہا ہے کہ ساحلی علاقوں میں جس قدر بڑے پیمانے پر اور وحشیانہ تشدد کیا گیا وہ نہایت پریشان کن ہے۔

اس میں ہلاکتوں اور لاشوں کی بے حرمتی جیسے افعال شامل ہیں۔ ان واقعات کے بارے میں معلومات لینے کے لیے 200 سے زیادہ لوگوں سے بات کی گئی جن میں تشدد کے متاثرین اور گواہان دونوں شامل تھے جبکہ اجتماعی قبروں کا جائزہ بھی لیا گیا۔

ہولناک قتل و غارت

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی واقعات میں جنگجو علاوی مردوں کی نشاندہی کے بعد انہیں خواتین اور بچوں سے علیحدہ کر کے لے گئے اور ہلاک کر دیا۔ قتل کیے جانے والوں کی لاشیں کئی روز سڑکوں پر پڑی رہیں اور لواحقین کو مذہبی رسومات کے مطابق ان کی تدفین سے بھی روک دیا گیا جبکہ بہت سی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا جن کی شناخت غیرواضح ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تشدد کے نتیجے میں ہسپتال لاشوں اور زخمیوں سے بھر گئے۔ جب عبوری حکومت کی فورسز نے تشدد روکنے اور شہریوں کو تحفظ دینے کی کوشش کی تو تب بھی اس کے بعض ارکان کی جانب سے علاوی دیہات میں لوگوں کو منظم طور سے اور بڑے پیمانے پر ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

عبوری حکومت کی بے گناہی

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ واقعات عبوری حکومت کی پالیسی یا اس کا کوئی سوچا سمجھا اقدام تھے۔

اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سابق صدر کے حامی مسلح گروہوں نے بھی ایسے افعال کا ارتکاب کیا جو جنگی جرائم کے مترادف ہو سکتے ہیں۔

کمیشن نے ان واقعات کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے شام کے عبوری حکام کے عزم کو سراہا ہے۔ اس ضمن میں 9 مارچ کو شام کے عبوری صدر کی جانب سے قومی سطح پر قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے 22 جولائی کو اعلان کیا تھا کہ اس نے عسکری دھڑوں سے تعلق رکھنے والے 298 اور سابق حکومت کے حامی مسلح گروہوں سے وابستہ 298 لوگوں کی نشاندہی کر لی ہے جو اس تشدد میں ملوث تھے۔ ان افراد کے نام قانونی کارروائی کے لیے ملک کے اٹارنی جنرل کو بھیجے جائیں گے۔