جنسی زیادتی کا بطور دہشت گردی اور جنگی ہتھیار کے استعمال میں اضافہ، رپورٹ

یو این جمعہ 15 اگست 2025 01:15

جنسی زیادتی کا بطور دہشت گردی اور جنگی ہتھیار کے استعمال میں اضافہ، ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 اگست 2025ء) ریاستی و غیرریاستی کرداروں کی جانب سے جنسی تشدد کا جنگ، دہشت گردی اور سیاسی جبر کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال بڑھتا جا رہا ہے جسے روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں متحارب فریقین کو بین الاقوامی قوانین پر سختی سے عمل کرنے کے لیے کہا ہے۔

مسلح تنازعات میں جنسی تشدد کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2024 میں مسلح تنازعات کے دوران کم از کم 4,600 افراد کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ 2023 کے مقابلے میں 25 فیصد بڑی تعداد ہے جبکہ ایسے بہت سے واقعات سامنے نہیں آ پاتے۔

Tweet URL

یہ رپورٹ اس مسئلے کے تناظر میں 21 ممالک کی صورتحال کا احاطہ کرتی ہے۔

(جاری ہے)

ایسے بیشتر واقعات جمہوریہ کانگو، ہیٹی، وسطی جمہوریہ افریقہ، صومالیہ اور جنوبی سوڈان میں پیش آئے جن کے متاثرین میں خواتین، لڑکیاں، مرد، لڑکے، متنوع جنسی رجحان اور شناخت کے حامل افراد، نسلی و قومی اقلیتیں اور جسمانی معذور افراد بھی شامل ہیں جن کی عمر ایک سے 75 سال تک تھی۔

مدد اور بحالی کا فقدان

جنگوں میں جنسی تشدد کے مسئلے پر سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ پرامیلا پیٹن نے کہا ہے کہ اشد ضرورت کے وقت ان متاثرین بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کو جنسی، تولیدی و نفسیاتی صحت، قانونی مدد اور حصول روزگار کے لیے کسی طرح کا تعاون میسر نہیں آتا۔

انسانی امداد میں بھی اس مقصد کے لیے حسب ضرورت وسائل مختص نہیں کیے جاتے جبکہ متاثرین کو تشدد کے بعد 72 گھنٹے میں ضروری طبی مدد ملنی چاہیے بصورت دیگر ان کے لیے ایچ آئی وی سمیت دیگر بیماریاں اور مسائل لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگوں میں جنسی تشدد کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے کثیرشراکتی ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے متاثرین کے لیے تحفظ، مدد اور بحالی کی خدمات کو بہتر اور وسیع بنانے کی ضرورت ہے۔

تمام متعلقہ حالات میں خواتین کے تحفظ سے متعلق مشیروں کی تعیناتی بھی عمل میں آنی چاہیے جس کا مطالبہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2467 میں بھی کیا گیا ہے۔

خواتین کے لیے سنگین خطرات

مسلح تنازعات کے دوران جنسی تشدد کے متاثرین میں 92 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔ ایسے بہت سے واقعات میں متاثرین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے۔

جن لوگوں کی جان بچ جاتی ہے انہیں عمر بھر بدنامی اور سماجی مقاطع جیسے حالات کا سامنا رہتا ہے۔ اس طرح ان کے لیے سماجی معاشی مواقع محدود رہ جاتے ہیں اور ناصرف وہ خود بلکہ ان کے بچے بھی غربت میں زندگی گزارتے ہیں جن میں جنسی زیادتی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے بھی شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، رسمی و غیر رسمی حراستی مراکز میں کئی طرح کا جنسی تشدد ہوتا ہے جس میں معلومات کے حصول کے لیے کیا جانے والا تشدد بھی شامل ہے۔

عام طور پر مرد اور لڑکے اس کا نشانہ بنتے ہیں لیکن خواتین اور لڑکیاں بھی اس سے محفوظ نہیں ہوتیں۔

غیرریاستی کردار اپنے زیرقبضہ علاقوں اور قدرتی وسائل پر تسلط کو مضبوط کرنے اور انتہاپسندانہ نظریات کو تقویت دینے کے لیے تشدد سے کام لیتے ہیں۔ بیشتر حالات میں چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں کی عام دستیابی بھی جنسی تشدد کو ہوا دیتی ہے۔

IOM

دوران جنگ انسانی سمگلنگ

رپورٹ کے مطابق، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور عدم تحفظ کے باعث خواتین اور لڑکیوں کے لیے جنسی تشدد کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

اغوا اور جنسی غلامی و استحصال کے مقصد سے دوران جنگ انسانی سمگلنگ میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے دہشت گرد گروہ بھی ان ہتھکنڈوں سے کام لے رہے ہیں جن پر سلامتی کونسل نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

بڑھتی ضروریات کے باوجود متحارب فریقین کی عائد کردہ رکاوٹوں کے باعث تشدد کا شکار علاقوں میں انسانی امداد نہیں پہنچتی۔ طبی سہولیات کی تباہی اور نچلی سطح پر مدد پہنچانے والوں کے خلاف حملوں، ہراسانی اور دھمکیوں کے باعث جنسی تشدد کےمتاثرین کو ضروری مدد نہیں مل پاتی۔

سلامتی کونسل کی ذمہ داری

رپورٹ کے ضمیمے میں ایسے 63 ممالک اور غیرریاستی کرداروں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو مسلح تنازعات میں جنسی زیادتی یا دیگر طرح کے جنسی تشدد کے ذمہ دار ہیں۔

اگرچہ متحارب فریقین بین الاقوامی قانون کی پوری طرح پابندی نہیں کرتے تاہم اس فہرست میں شامل متعدد ریاستی و غیرریاستی کرداروں نے دوران جنگ جنسی تشدد کے مسئلے کی روک تھام سے متعلق رسمی وعدے ضرور کر رکھے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں قوانین کی تعمیل کو بہتر بنانے کے لیے پابندیوں سے متعلق سلامتی کونسل کی کمیٹی کو جنسی تشدد پر مبنی جرائم کا تواتر سےجائزہ لینا چاہیے اور ان کے مرتکب عناصر کے خلاف پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں۔

اقوام متحدہ نے آٹھ ممالک پر دوران جنگ جنسی تشدد کی پاداش میں مخصوص پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔

علاوہ ازیں، جون 2024 میں سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد 2734 میں جنسی اور جنس کی بنیاد پر تشدد کو داعش اور القاعدہ سے متعلق تعزیری نظام کے تحت قابل سزا (پابندی) جرم قرار دیا۔ اس طرح، جنگوں میں جنسی تشدد کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں مرکزی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔

© UNICEF/Jim Holmes

جنسی تشدد: نئے کرداروں کی نامزدگی

رپورٹ کے ضمیمے میں دوران جنگ جنسی تشدد میں ملوث نئے ریاستی و غیر ریاستی کرداروں کا نام بھی دیا گیا ہے۔

ان میں جمہوریہ کانگو کا مسلح گروہ ریڈ، لیبیا میں منظم جرائم و دہشت گردی کی روک تھام کا ادارہ (ڈیکوٹ)، غیرقانونی مہاجرت کو روکنے کا ادارہ (ڈی سی آئی ایم) اور بن غازی میں قائم داخلی سلامتی کا ادارہ بھی شامل ہیں۔ ان گروہوں پر اجتماعی جنسی زیادتی اور حراستی مراکز میں جنسی تشدد کے مصدقہ الزامات ہیں۔

اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال کے تناظر میں حماس کا نام بھی جنسی جرائم میں ملوث گروہ کے طور پر اس ضمیمے کا حصہ ہے۔

اسرائیل اور روس کے لیے انتباہ

رپورٹ میں پہلی مرتبہ ایک ملحقہ بھی شامل ہے جس میں بعض فریقین کو مسلح تنازعات کے دوران تشدد سے باز رہنے کے حوالے سے متنبہ کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے نگرانوں کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور یوکرین میں روس کے زیرقبضہ جگہوں تک رسائی نہ ملنے کے باعث وہاں منظم جنسی تشدد سے متعلقہ جرائم کی تفصیلات کے حصول اور ان کی تصدیق کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

تاہم، سیکرٹری جنرل نے اسرائیل اور روس کی مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز کو آئندہ رپورٹ کی اشاعت سے قبل ملحقہ حصے میں شامل کیا ہے۔ یہ اقدام حراستی مراکز میں قیدیوں پر جنسی تشدد کے ارتکاب سے متعلق خدشات کے تناظر میں اٹھایا گیا ہے۔

IOM Port of Spain

سکیورٹی فورسز کا احتساب

سیکرٹری جنرل نے دنیا بھر میں تمام متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد 2467 کی مطابقت سے خصوصی اقدامات کریں۔

ان میں افواج اور سکیورٹی فورسز میں ہر سطح پر جنسی تشدد کے جرائم کی ممانعت کے حوالے سے واضح احکامات کا اجرا، ایسے جرائم میں ملوث اہلکاروں کا احتساب اور جرم کی نگرانی سمیت متاثرین کو ضروری خدمات مہیا کرنے کے مقصد سے اقوام متحدہ کے اداروں کو بلارکاوٹ رسائی دینا شامل ہیں۔

پرامیلا پیٹن نے کہا ہے کہ وہ ہر جگہ فریقین کو اس جرم کی روک تھام میں تکنیکی مدد مہیا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے مسلح تنازعات کے دوران جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے چھ مخصوص قراردادوں کے ذریعے اس جرم کی روک تھام کا عزم کیا گیا ہے۔ متاثرین کو صرف ہمدردی کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں پُروقار زندگی مہیا کرنے کے ساتھ ایسے جرائم کی روک تھام اور خاتمے کے لیے موثر اور فیصلہ کن کارروائی بھی لازم ہے۔