سینیٹ،انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2025 منظور، کامران مرتضیٰ کی تجاویز مسترد

منگل 19 اگست 2025 18:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اگست2025ء)سینیٹ نے انسداد دہشتگری ترمیمی بل 2025 منظور کرلیا، بل وزیر مملکت طلال چوہدری نے پیش کیا جبکہ جے یوآئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے تجویز کردہ ترامیم مسترد کردی گئیں، بل کی منظوری کے بعد پی ٹی آئی ارکان ہاؤس سے احتجاجاً واک آؤٹ کرگئے۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی زیرصدارت اجلاس میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے انسداد دہشت گردی قانونی 2025 میں ترمیم کا بل پیش کیا۔

اس موقع پر اپوزیشن نے احتجاج اور شور شرابہ کیا، جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل پر ترامیم پیش کیں جنہیں ایوان نے مسترد کردیا۔سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ترامیم کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کو بل بھجوانے کی تحریک بھی ہیں۔

(جاری ہے)

کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر ہم ترمیم کی مخالفت کررہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دہشتگردوں کے حامی ہیں، اس بل کو کمیٹی میں بھجواتے تو قیامت نہیں آجاتی، یہ ترمیم آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ فیصل سبزواری کی بات سے لگا وہ بے بسی میں ووٹ دے رہے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر کے بعد دہشت گرد ناچتے ہوئے ان کے گاؤں گئے تھے، اس ترمیم کا ہمارے خلاف اطلاق ہوگا لیکن ہم تاریخ کی درست سمت پر کھڑے ہیں۔اس سے قبل ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس قانون میں اسلامک ٹچ نہیں دینا چاہتے، بدقسمتی سے ہم کمپرومائز کی وجہ سیدہشتگردی کاشکارہوئے ہیں، جیل میں ڈالنا ہیتو ڈال دیں لاپتہ کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، یقینی بنائیں کہ اختلاف رائے پر کسی پر اس قانون کا اطلاق نہ ہو۔

دریں اثنا، بل کے مندرجات سامنے آگئے جس کے مطابق بل 3 سال کے لیے نافذ عمل ہوگا ، اس دوران کسی بھی مشتبہ شخص کو 3 ماہ تک زیر حراست رکھا جاسکے گا، بل کے تحت سیکشن 11 فور ای کی ذیلی شق ایک میں ترمیم کر دی گئی۔ترمیم کے تحت مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کسی بھی شخص کو حفاظتی حراست میں رکھنے کی مجاز ہوں گی، ملکی سلامتی، دفاع، امن و امان، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کسی بھی شخص کو حراست میں رکھا جا سکے گا۔

متن کے مطابق مذکورہ جرائم میں ملوث شخص کی حراست کی مدت آرٹیکل 10 کے تحت بڑھائی جا سکے گی، زیر حراست شخص کے خلاف تحقیات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی۔متن کے مطابق متعلقہ تحقیقاتی ٹیم ایس پی رینک کے پولیس افیسر، خفیہ ایجنسیوں، سیول مسلح افواج ، مسلحہ افواج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں پر مشتمل ہوگی، ٹھوس شواہد کے بغیر کسی بھی شخص کو زیر حراست نہیں رکھا جاسکے گا۔