پاکستان کی آٹو انڈسٹری کا مستقبل روشن ہے، ہارون اختر خان

حکومت نئی انرجی وہیکل پالیسی 2025-30 پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے، معاون خصوصی

منگل 19 اگست 2025 18:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اگست2025ء)وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان نے کہاہے کہ پاکستان کی آٹو پارٹس انڈسٹری ملکی جی ڈی پی میں 3 فیصد حصہ ڈال رہی ہے اور اس شعبے میں 25 لاکھ سے زائد روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔منگل کوآٹو پارٹس سمٹ 2025 میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی اور پاکستان کی آٹو انڈسٹری کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہارون اختر خان نے کہا کہ ملک میں سات بڑی کار ساز کمپنیاں مقامی سطح پر پروڈکشن کر رہی ہیں جبکہ 1200 سے زائد آٹو پارٹس مینوفیکچررز مقامی پرزہ جات تیار کر رہے ہیں۔معاونِ خصوصی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ صنعت کو توانائی کے اخراجات، ٹیکنالوجی تک رسائی اور فنانس جیسے مسائل کا سامنا ہے، تاہم وزیر اعظم کی ہدایت پر ایسی پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں جن کے ذریعے مقامی آٹو انڈسٹری کو عالمی معیار تک پہنچایا جائے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکومت نئی انرجی وہیکل پال30-2025 پر عملدرآمد کیلئے پرعزم ہے اور اس مقصد کے لیے آٹو انڈسٹری کو تحقیق، ترقی اور ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے خصوصی سپورٹ فراہم کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو عالمی مقابلے کے قابل بنایا جائے گا۔ صنعتکاروں کو چاہیے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق میں سرمایہ کاری کریں۔

حکومت اور انڈسٹری مل کر پاکستان کو آٹوموٹو حب بنائیں گے۔انہوں نے اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان کی آٹوموٹو انڈسٹری کا مستقبل روشن ہے۔ ہارون اختر خان نے کہا کہ حکومت نئی انرجی وہیکل پالیسی 2025-30 پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے۔ اس مقصد کے تحت آٹو انڈسٹری کو تحقیق، ترقی اور برآمدات کے فروغ کے لیے خصوصی سہولتیں اور سپورٹ فراہم کی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو عالمی سطح پر مقابلے کے قابل بنایا جائے گا۔ صنعتکاروں کو چاہیے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق میں سرمایہ کاری کریں تاکہ عالمی معیار کے مطابق مصنوعات تیار کی جا سکیں۔ہارون اختر خان نے اعتماد کا اظہار کیا کہ حکومت اور آٹو انڈسٹری باہمی تعاون سے پاکستان کو خطے میں ایک نمایاں آٹوموٹو حب میں تبدیل کریں گے۔ اس اقدام سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ برآمدات میں اضافہ اور معیشت کو مزید استحکام بھی حاصل ہوگا۔