حکومت کا صنعتوں میں مصنوعی ذہانت کے فروغ کیلئے سبسڈی اور ٹیکس چھوٹ دینےپر غور

جمعہ 5 ستمبر 2025 17:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 ستمبر2025ء) حکومت ملک کی صنعتوں میں ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کرنے اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے انضمام کو فروغ دینے کے لئے مالی مراعات، بشمول سبسڈیز اور ٹیکس استثنیٰ دینے پر غورکر رہی ہے۔ویلتھ پاکستان کو دستیاب وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دستاویزات کے مطابق یہ اقدام ایک جامع روڈ میپ کا حصہ ہے جو آئی ٹی بورڈز اور سینٹر آف ایکسیلنس فار آرٹیفیشل انٹیلی جنس (سی او ای-اے آئی) کے اشتراک سے تیار کیا جا رہا ہے۔

سبسڈیز اور ٹیکس استثنیٰ زیادہ تر مقامی طور پر تیار کردہ اے آئی ٹیکنالوجیز کو دیئے جائیں گے تاکہ انہیں درآمدی متبادل پر ترجیح دی جا سکے جبکہ ان کے مجموعی مارکیٹ اثرات اور اثر و رسوخ کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

اے آئی کے فروغ کے لئے ترجیحی شعبوں میں تعلیم، صحت، ریکارڈ ڈیجیٹائزیشن، طرز حکمرانی، زراعت، مینوفیکچرنگ، توانائی کا انتظام، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا اور پاکستان کے ثقافتی ورثے کا تحفظ شامل ہیں۔

یہ روڈ میپ 2025 سے 2026 کے درمیان نافذ کیا جائے گا جس کا مقصد ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں تیزی لانا اور مختلف شعبوں میں صلاحیتوں کو بڑھانا ہے بالخصوص عوامی اداروں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔صنعتی شعبے میں نیٹ ورک ماڈل اپروچ اختیار کیا جائے گا تاکہ ایک ایسے ماحولیاتی نظام کے ذریعے مکمل لائف سائیکل سپورٹ فراہم کی جا سکے جو اے آئی پر مبنی اختراعات، خودکار نظام اور پیش گوئی کرنے والے طریقوں کو فروغ دے۔

اس کے ساتھ ہی دانشورانہ املاک کے حقوق کا تحفظ بھی مضبوط کیا جائے گا تاکہ موجد، محققین اور کمپنیاں اے آئی پر مبنی ترقیات کے لئے کاپی رائٹس، پیٹنٹس اور ٹریڈ مارکس حاصل کر سکیں۔دستاویزات کے مطابق منصوبے میں صنعتوں میں مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) کے انضمام کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے تاکہ پیداواریت میں اضافہ ہو، توانائی کے مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جا سکے، پیشگی دیکھ بھال ممکن ہو اور کوالٹی کنٹرول کو بہتر بنایا جا سکے۔

اس مقصد کے لئے آگاہی مہمات، ورکشاپس اور خصوصی تربیتی پروگرامز شروع کئے جائیں گے۔صنعتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ آئی ٹی بورڈز 2026 میں شعبہ وار تربیتی کورسز اور سرٹیفکیشن پروگرامز بھی متعارف کرائیں گے تاکہ ورک فورس کو اے آئی سے متعلقہ مہارتوں سے لیس کیا جا سکے۔اس وقت تک کم از کم 50 اداروں میں اے آئی میچورٹی ماڈل اور پروجیکٹ مینجمنٹ رہنما اصول نافذ کئے جائیں گے تاکہ بین الاقوامی احتساب اور آڈٹ کے معیارات پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔

ایک رینکنگ مینجمنٹ سسٹم (آر ایم ایس) بھی متعارف کرایا جائے گا تاکہ اے آئی حلوں کا جائزہ لیا جا سکے اور صارفین کو موزوں ٹیکنالوجیز کے انتخاب میں رہنمائی فراہم کی جا سکے۔ آر ایم ایس کو ایک سرکاری ادارہ شفافیت، باقاعدہ اپ ڈیٹس اور سالانہ ٹرسٹ انڈیکس سروے کے ذریعے دیکھ بھال کرے گا۔دستاویزات میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سرکاری و نجی دونوں شعبوں میں وسیع پیمانے پر اپنانے کی سہولت کے لئے سی او ای-اے آئی اور اے آئی ڈائریکٹوریٹ تکنیکی، ریگولیٹری، کمپیوٹیشنل اور مالی معاونت فراہم کریں گے۔

نیشنل آرٹیفیشل انٹیلی جنس فنڈ (این اے آئی ایف) بھی تحقیق و اختراع کو آگے بڑھانے اور پاکستان کے صنعتی و اقتصادی ڈھانچے میں اے آئی کو ضم کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔سبسڈی، ٹیکس مراعات، مقامی حلوں کو ترجیح اور افرادی قوت کی تربیت کا یہ امتزاج پاکستان میں ایک پائیدار اے آئی ماحولیاتی نظام قائم کرنے کی توقع رکھتا ہے، جو ملکی صنعتوں کو ڈیجیٹل تبدیلی کے صفِ اول میں لا کھڑا کرے گا ۔