نیپال میں احتجاج کا سلسلہ جاری، 3وزرا کے بعد وزیراعظم بھی مستعفی

منگل 9 ستمبر 2025 16:51

کھٹمنڈو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 ستمبر2025ء) نیپال میں حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عائد پابندی ختم کرنے کے باوجود دارالحکومت کھٹمنڈو سمیت مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور کابینہ کے تین ارکان کے بعد وزیراعظم کے پی شرما اولی بھی مستعفی ہو گئے ہیں۔ بی بی سی اردو کے مطابق نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی اور مبینہ سیاسی بدعنوانی کے خلاف دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہونے والے احتجاج میں متعدد اموات پر وزیراعظم کے پی شرما اولی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

ملک میں جاری پرتشدد احتجاج کے دوران اب تک 21 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں نیپال کے وزیر داخلہ اور وزیر صحت سمیت3وزرا نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تاہم مظاہرین نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور منگل کی دوپہروزیراعظم بھی مستعفی ہو گئے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے بیان میں کہا کہ انھوں نے موجودہ بحران کے آئینی حل کی راہ ہموار کرنے کے لئے استعفیٰ دیا ہے۔

پیر کو شروع ہونے والے احتجاج کے بعد حکومت نے رات گئے سوشل میڈیا ایپس پر عائد پابندی ختم کر دی لیکن منگل کی صبح بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران کئی اہم سیاستدانوں کی رہائش گاہوں پر حملہ کیا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی، جن میں مستعفی ہونے والے وزیراعظم کے پی شرما اولی کے گھر پر حملہ کر کے اسے نذر آتش کر دیا گیا اور وزرا اور سابق وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا کے گھروں پر بھی حملہ کیا گیا ، فوج نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے وزرا کو گھروں سے نکالا ہے۔

اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے ہیڈکوارٹرز کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ سول سروس ہسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر موہن ریگمی نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کو ہونے والے احتجاج کے دوران مزید 2 افراد جاں بحق ہوئے۔ اس سے قبل پیر کو 19 افراد کی اموات کی تصدیق کی گئی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت 90 سے زیادہ افراد ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ یاد رہے کہ پیر کو ہزاروں نوجوانوں نے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی اور حکومت سے فیس بک، ایکس، یوٹیوب سمیت 26 میڈیا پلیٹ فارمز سے پابندی ختم کرنے اور ملک میں جاری کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اموات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ مظاہرین کے خلاف گولہ بارود کا استعمال کیا گیا۔ پیر کو مظاہرین نے پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے کی کوشش کی جس پر سکیورٹی اہلکاروں نے انھیں روکنے کے لئے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بھی استعمال کیا تھا۔

جمعرات کونیپال کی حکومت نے مبینہ طور پر حکومتی ضوابط کی خلاف ورزی پر ملک بھر میں 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا تھا۔حکام نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو نیپال کی وزارت برائے کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ رجسٹر کرنے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔جن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی گئی، ان میں واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب شامل ہیں تاہم چند دیگر ایپس جیسے ٹک ٹاک اور وائبر ملک میں ابھی بھی کام کر رہے تھے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جھوٹی خبروں ، نفرت انگیز مواد اور آن لائن فراڈ کی روک تھام کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔