قطرمیں حماس رہنمائوں پرحملہ اسرائیل کو مہنگا پڑسکتا ہے، عسکری اور قانونی ماہرین

بدھ 10 ستمبر 2025 12:27

قطرمیں حماس رہنمائوں پرحملہ اسرائیل کو مہنگا پڑسکتا ہے، عسکری اور ..
تل ابیب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 ستمبر2025ء)اسرائیلی فوج کی جانب سے دوحہ میں حماس کے رہنمائوں کو نشانہ بنانے اور دس سے زائد بھاری ہتھیاروں سے ان کے مراکز پر حملے کے بعد کئی اہم سوالات جنم لے رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسرائیل نے ایسی کارروائی کیوں کی اس کے مذاکراتِ جنگ بندی پر کیا اثرات ہوں گی اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ساتھ ہی بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک خودمختار ملک پر حملے کے مضمرات کیا ہوسکتے ہیں مصری عسکری امور کے ماہر اور کالج آف کمانڈ اینڈ اسٹاف کے لیکچرار لیفٹیننٹ جنرل اسامہ کبیر نے عرب ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ یہی نیتن یاھو کا اصل مقصد ہے۔

ان کے مطابق نیتن یاھو اپنے قیدی فوجیوں کی پروا کرتے ہیں اور نہ ان کے خاندانوں کی۔

(جاری ہے)

وہ چاہتے ہیں کہ قیدیوں کو حماس کے ہاتھوں ہی ختم کر دیا جائے تاکہ جنگ جاری رہے، کیونکہ جنگ کا خاتمہ ان کی سیاسی زندگی کے انجام، حکومت کے ٹوٹنے اور جیل کی راہ ہموار کرے گا۔ اسی لیے وہ ہر قیمت پر جنگ کو دہکائے رکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاھو بخوبی جانتے ہیں کہ حماس نے تقریبا ایک سال قبل ہی اعلان کر دیا تھا کہ اگر قابض فوج کے اہلکار قریب پہنچے تو وہ قیدیوں کو ختم کر دیں گے۔

یہی وہ صورت حال ہے جسے نیتن یاھو چاہتے ہیں۔ اس تازہ کارروائی سے انہیں دو بڑے مقاصد حاصل ہوئے۔ اول قیدیوں کے خاندانوں کی جانب سے ڈالا جانے والا دبا ختم ہو، دوم حماس کے ہاتھوں قیدیوں کی ہلاکت کا سہارا لے کر جنگ کو مزید طویل کیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد محمود مہرن جو امریکہ اور یورپ کی بین الاقوامی قانون کی تنظیموں کے رکن ہیں نے کہا کہ اسرائیلی حملہ قطر کی علاقائی خودمختاری پر کھلا وار ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔

یہ عمل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 3314 کے تحت جارحیت کے زمرے میں آتا ہے، جو کسی خودمختار ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کو سختی سے ممنوع قرار دیتا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ بین الاقوامی قانون کسی بھی خودمختار ملک پر حملے کو کسی صورت جواز نہیں دیتا، چاہے ہدف مطلوب افراد ہی کیوں نہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی قوانین میں دیگر راستے موجود ہیں جیسے ملزمان کی حوالگی اور عدالتی کارروائی، نہ کہ براہِ راست فوجی جارحیت۔

ڈاکٹر مہرن کے مطابق ایسی کارروائی پر اسرائیل کے خلاف مختلف سطح کی سزائیں ممکن ہیں۔ سب سے پہلے عالمی سطح پر مذمت اور سفارتی تنہائی، پھر وسیع اقتصادی پابندیاں اور آخرکار ذمہ دار اسرائیلی حکام کو عالمی فوجداری عدالت میں جارحیت کے جرم کے تحت پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ ریاست کو نقصان کی تلافی کا حق بھی حاصل ہے اور وہ انفرادی یا اجتماعی دفاع کے اصول کے تحت جواب دینے کا حق رکھتی ہے۔ ان کے بہ قول اگر ایسی خلاف ورزیوں پر کارروائی نہ کی گئی تو بین الاقوامی قانون اپنی ساکھ کھو بیٹھے گا اور مزید جارحیت کی راہ کھلے گی۔