ؔکوئٹہ،بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا

بدھ 17 ستمبر 2025 22:15

7کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 ستمبر2025ء)بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی رحمت صالح بلوچ، ولی محمد نورزئی، زابد علی ریکی اور صفیہ بی بی شریک ہوئے۔ اجلاس میں سیکرٹری بلوچستان اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، اکاونٹنٹ جنرل بلوچستان نصراللہ جان، آڈیٹر جنرل بلوچستان شجاع علی، سیکرٹری خزانہ عمران زرکون، حبیب الرحمن کاکڑ، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری لاء ڈیپارٹمنٹ سعید اقبال، چیف اکاونٹس آفیسر پی اے سی سید محمد ادریس سمیت دیگر افسران نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (S&GAD) اور پبلک فنانشل مینجمنٹ سے متعلقہ آڈٹ پیراز اور اکاونٹنٹ جنرل بلوچستان کے سرٹیفیکیشن آڈٹ کے دوران سامنے آنے والے مالیاتی امور پر تفصیلی غور کیا گیا۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے آئین کے آرٹیکل 119 اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی شق 4(3) کے مطابق بلوچستان کے حصے سے متعلق اہم نکات پر بحث کی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2021-22 میں بلوچستان کو وفاق کی جانب سے ڈیوزایبل پول سے کئی ارب روپے کم ملے۔

یہ معاملہ صوبائی حکومت کی جانب سے بروقت پیروی نہ کرنے کی وجہ سے سامنے آیا، جو آئین اور این ایف سی ایوارڈ کی خلاف ورزی ہے۔ زابد علی ریکی نے کہا کہ یہ معاملہ ہائی لیول پر مرکزی حکومت کے ساتھ اٹھایا جائے ولی محمد نورزئی نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ اس غریب صوبہ کی اربوں روپے نہیں مل رہے ہیں اور فنانس ڈپارٹمنٹ کے حکام اس اہم مسئلہ میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا ہے جو کہ باعث حیرانی ہے۔

رحمت صالح بلو نے کہا کہ محکمہ خزانہ کو چاہیے کہ سابقہ دور کے اربوں روپوں کی رقم اور اس بجٹ میں بھی اگر مرکز کی طرف سے رقم کم ملی ہے تو اس اہم مسئلہ پر محکمہ خزانہ کے حکام فوری طور پر اسلام آباد جائیں اور فیڈرل سے یہ رقم حاصل کر کے اس رقم کو استعمال کرتے ہوئے ہر ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر کے ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے اور ان میں ٹراما سینٹر بنائے جائیں۔

اسی طرح مختلف اضلاع میں ڈسٹرکٹ اکاونٹس آفیسرز اور نیشنل بینک آف پاکستان کے درمیان 6 ارب 99 کروڑ روپے کے مالیاتی فرق کی نشاندہی کی گئی۔ کمیٹی نے واضح کیا کہ فوری طور پر اضلاع کے ذمہ دار افسران کو کوئٹہ بلا کر رقم کی تفصیلات کو یکساں کیا جائے، بصورت دیگر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کر کے او ایس ڈی بنایا جائے گا۔ اجلاس میں سالانہ اکاونٹس میں 5 ارب روپے سے زائد کے منفی بیلنس، 58 کروڑ روپے سے زائد کی غلط ادائیگیاں، اور تقریبا 39 کروڑ روپے کی بے ضابطہ چیک ادائیگیوں پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔

کمیٹی نے ہدایت دی کہ تمام ادائیگیاں قواعد و ضوابط کے مطابق کی جائیں اور آئندہ ایسی بے قاعدگیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (S&GAD) کے حوالے سے اجلاس میں مزید انکشاف ہوا کہ 33 کروڑ 46 لاکھ روپے کی سرکاری واجبات تاحال وصول نہیں کی گئیں، جبکہ بلوچستان ہاوس اسلام آباد اور وی آئی پی فلیٹس کے حوالے سے سنگین بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی۔

سرکاری واجبات اور سرکاری گاڑیوں کے بارے میں چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین نے ہدایت کی کہ ریٹائرڈ افسران سے سرکاری گاڑیاں اور واجبات فوری واپس لیے جائیں۔مزید برآں، اجلاس میں اس امر پر بھی تشویش ظاہر کی گئی کہ ایک حکومتی طیارہ جو 2013 سے غیر فعال ہے، اب تک نیلام نہیں کیا گیا، جس سے حکومتی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کمیٹی نے حکم دیا کہ دو ماہ کے اندر طیارے کو یا تو نیلام کیا جائے یا اسے قابل استعمال بنایا جائے اس دوران زابد علی ریکی اور صفیہ بی بی نے پی اے سی کے سابقہ فیصلے جو 2020 میں کیے گئے تھے ان کمپلائنس پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے حکام کی یہ رویہ پی اے سی کے فیصلوں پر عدم پیروی کی زمرے میں آتا ہے۔

چیئرمین پی اے سی اصغر علی ترین نے کہا کہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے حکام میٹنگ میں بغیر تیاری کے آئے ہیں۔ کمیٹی نے مجموعی طور پر اس بات پر زور دیا کہ مالی نظم و ضبط کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے، ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور حکومت کے وسائل کو شفافیت کے ساتھ استعمال کیاجائے گا