مسئلہ فلسطین پر آج ہونیوالی یو این کانفرنس بارے جاننے کی اہم باتیں

یو این پیر 22 ستمبر 2025 10:15

مسئلہ فلسطین پر آج ہونیوالی یو این کانفرنس بارے جاننے کی اہم باتیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر22 ستمبر کو فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کا احیاء کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس عالمی کانفرنس میں دنیا بھر سے سربراہان مملکت و حکومت شرکت کریں گے۔

رواں سال اپریل میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اسرائیلی۔

فلسطینی مسئلے کےدو ریاستی حل کا امکان کمزور پڑ رہا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا سیاسی عزم اب پہلے سے کہیں زیادہ دور محسوس ہوتا ہے۔

حالیہ دنوں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ مسئلے کے اس حل کا متبادل کیا ہے؟ کیا یہ حل یک ریاستی ہو گا جس میں یا تو فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے نکال دیا جائے، یا انہیں اپنی سرزمین پر حقوق کے بغیر رہنے پر مجبور کیا جائے؟

انہوں نے زور دیا کہ دو ریاستی حل کو زندہ رکھنا اور اس کے لیے ضروری حالات پیدا کرنا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے۔

(جاری ہے)

درج ذیل نکات اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ دو ریاستی حل کے لیے ہونے والی کانفرنس کیوں اہم ہے۔

UN Photo
جنوبی فلسطین میں غزہ کے علاقے خان یونس میں ایک پناہ گزین خاندان (سال 1948)

دو ریاستی حل کی تاریخ

  • یہودی اور فلسطینی آبادیوں کے لیے ایک دوسرےکے ساتھ الگ ریاستیں قائم کرنے کا تصور اقوام متحدہ کے قیام سے بھی زیادہ پرانا ہے۔

    اس تصور کو وقت کے ساتھ کئی بار ترتیب دیا گیا اور یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درجنوں قراردادوں، کئی امن مذاکرات اور جنرل اسمبلی کے حالیہ دسویں ہنگامی خصوصی اجلاس میں بھی زیربحث آیا ہے۔
  • 1947 میں برطانیہ نے فلسطین پر اپنا مینڈیٹ ختم کرتے ہوئے 'فلسطینی مسئلہ' اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا جس نے اس مسئلے کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔

    اقوام متحدہ نے فلسطین کو خودمختار فلسطینی عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے اور یروشلم کو بین الاقوامی حیثیت دینے کی تجویز دی۔
  • 1991 میں سپین کے شہر میڈرڈ میں امن کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کا مقصد براہِ راست مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا پرامن حل نکالنا تھا۔ یہ مذاکرات سلامتی کونسل کی قرارداد 242 (1967) اور 338 (1973) کی بنیاد پر اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ہونا تھے۔

  • 1993 میں اسرائیلی وزیراعظم آئزک رابن اور فلسطینی تنظیم آزادی کے چیئرمین یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے جس میں آئندہ مذاکرات کے اصول وضع کیے گئے اور مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی عبوری خودمختار حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔
  • اوسلو معاہدے میں کچھ اہم معاملات کو بعد میں ہونے والے مستقل حیثیت کے مذاکرات تک مؤخر کر دیا گیا۔

    یہ مذاکرات 2000 میں کیمپ ڈیوڈ اور 2001 میں طابا میں ہوئے لیکن نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔
  • اوسلو معاہدے سے تین دہائیاں بعد بھی اقوامِ متحدہ کا بنیادی ہدف یہی ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو تنازع کا حل نکالنے میں مدد دی جائے اور فسلطینی علاقوں پر قبضے کا خاتمہ ہو تاکہ اسرائیل اور آزاد، جمہوری، قابل عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست امن و سلامتی سے، 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور یروشلم دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت ہو۔

IRIN/Andreas Hackl
مشرقی یروشلم میں ایک آبادکار خاتون جبکہ اسرائیلی فوجی پہرہ دے رہا ہے۔

کانفرنس سے توقعات

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے کے افتتاحی دن ہونے والی یہ کانفرنس ایسے وقت منعقد ہو رہی ہے جب غزہ میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں 60,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ 22 اگست کو شمالی غزہ میں قحط کی باضابطہ تصدیق کی گئی، 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر میں حماس کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع میں بھی تیزی آئی ہے۔

اس غیر مستحکم اور تشویشناک علاقائی صورتحال کے باوجود، دو ریاستی حل کو سفارتی سطح پر دوبارہ حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ 12 ستمبر کو جنرل اسمبلی نے کثرتِ رائے سے 'نیویارک اعلامیہ' منظور کیا جس میں دو ریاستی حل پر مبنی اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر منصفانہ اور پائیدار امن کی حمایت کی گئی۔ اعلامیے میں جنگ کے خاتمے کے لیے حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ غزہ میں اپنا کردار ختم کرے اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے۔

امریکہ اور اسرائیل نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

22 ستمبر کو ہونے والا سربراہی اجلاس اسی سفارتی پیش رفت کو آگے بڑھائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں اس اجلاس میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق، برطانیہ، کینیڈا، بیلجیئم اور آسٹریلیا سمیت کئی دیگر مغربی ممالک بھی اسی اقدام پر غور کر رہے ہیں۔

اس طرح، یہ سربراہی اجلاس اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے نیا لائحہ عمل ترتیب دینے کی عالمی کوششوں میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔