دفعہ370 کی منسوخی نے لداخ کو بغیر کسی تحفظ کے پورے بھارت کے لیے کھول دیا ہے، دورجے لکروک

پیر 29 ستمبر 2025 15:40

لہہ 29 (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 ستمبر2025ء) لداخ کے ممتاز بدھ رہنما چیرنگ دورجے لکروک نے اعتراف کیا ہے کہ لداخ کے لوگ ماضی میں دفعہ 370کو براسمجھتے تھے لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک حفاظتی ڈھال تھی جس نے ان کی زمین، ثقافت اور معیشت کو باہر کے لوگوں سے محفوظ رکھاتھا۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق لہہ اپیکس باڈی کے شریک چیئرمین اور لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ دورجے لکروک نے بھارتی اخبار''انڈین ایکسپریس'' کو بتایا کہ دفعہ370 کی منسوخی نے لداخ کو بغیر کسی تحفظ کے پورے بھارت کے لیے کھول دیا ہے۔

بیرونی لوگ یہاں زمین خرید رہے ہیں، ہوٹلوں کے بڑے بڑے چین قائم کررہے ہیں اور مقامی لوگ تیزی سے اپنی حیثیت کھو رہے ہیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ لداخیوں نے ماضی میں دفعہ 370کو برابھلا کہا لیکن اس نے 70سالوں تک ہماری حفاظت کی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہماری سرزمین مکمل طور پر محفوظ تھی، اب لداخ کو پورے بھارت کے لیے کھول دیا گیا ہے، ہمارے پاس کوئی تحفظ نہیں ہے۔

لکروک نے کہا کہ لداخ میں جاری احتجاج مکمل طور پر قدرتی ہے جس میں ہزاروں پڑھے لکھے لیکن بے روزگار نوجوان شرکت کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2019میں یونین ٹیریٹری کی تشکیل کے بعد چھ سالوں سے لوگوں میں غصہ پیدا ہو رہا تھا کیونکہ اس وقت کیے گئے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ کوئی پبلک سروس کمیشن یا لوکل کیڈر قائم نہیں کیا گیا، کوئی نئی آسامیاں پیدا نہیں کی گئیں اور بھرتیاں کنٹریکٹ پر کی جارہی ہیں جس سے بدعنوانی اور درمیانہ داروں کے استحصال کو ہوا دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسلیں عملی طور پر غیر فعال ہیں کیونکہ تمام اہم اختیارات اب لیفٹیننٹ گورنر اور بیوروکریٹس کے پاس ہیں جس سے مقامی لوگ بے اختیار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کمشنر اور سیکرٹری ہمارے حکمران بن چکے ہیں۔لیکروک نے خبردار کیا کہ شمسی توانائی کے منصوبے جیسے بڑے کارپوریٹ پروجیکٹس سے چراگاہوں کو خطرہ ہے اور پشمینہ بکریوں کے چرواہے نقل مکانی پر مجبورہونگے۔

45ہزار ممکنہ بیرونی کارکنوں کی آمدسے 15ہزارمقامی کارکن دبائے جائیں گے ۔انہوں نے ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک کی طرف سے ظاہر کئے گئے خدشات کی تائید کی ۔انہوں نے کہا کہ چھٹے شیڈول کی آئینی ضمانت کو جس کا لداخی بار بار مطالبہ کررہے ہیں،مودی حکومت نے نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کے بجائے بیوروکریٹس کو مقامی رسم و رواج، روایات اور یہاں تک کہ گائوں کی قیادت میں مداخلت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ لداخی رہنما نے کہاکہ لہہ اور کرگل کی سڑکوں پردکھائی دینے والا غم وغصہ دھوکہ دہی کے گہرے احساس سے پیدا ہوا ہے۔ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ دفعہ370ایک بری چیز ہے لیکن اب ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے تحفظ کے لئے تھا۔