سپریم کورٹ ، جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکم نامہ معطل، (آج) سے سماعتیں کریں گے

منگل 30 ستمبر 2025 02:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 ستمبر2025ء)سپریم کورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکم نامہ معطل کرنے کا عدالتی حکم نامہ جاری کردیا جس کے بعد انہیں ججز کے روسٹر میں سے شامل کر لیا گیا، وہ (آج) منگل سے سماعتیں کریں گے۔پیر کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ تھے۔

جسٹس طارق جہانگیری سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز سپریم کورٹ پہنچے، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس اعجاز اسحاق، جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی سپریم کورٹ پہنچیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچوں ججز عام سائلین والے راستے سے سپریم کورٹ میں داخل ہوئے۔

(جاری ہے)

دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس تو کیس صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے عبوری حکم کی حد تک ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 18 اکتوبر کو بلا لیا گیا ہے۔

جسٹس شاہد بلال نے کہا کہ اس سوال پر دونوں طرف کے فریقین کے وکلا تیاری کر کے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس جہانگیری کے خلاف درخواست پر اعتراضات موجود تھے، رجسٹرار آفس کے اعترضات کے باوجود رٹ پٹیشن پر نمبر کیسے لگ گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا۔جسٹس طارق جہانگیری کے وکیل منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ حال ہی میں جسٹس جمال خان کا فیصلہ ہے جج جج کے خلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کے حقائق مختلف تھے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ 16 ماہ تک جسٹس جہانگیری کے خلاف اس کیس میں نہ کسی کو حساسیت نظر آئی نا ہی کسی نے شدت پر بات کی، اچانک آرڈر دیا گیا جب تک سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت زیر التوا ہے جج کو کام سے روکا جاتا ہے، ملک اسد علی کیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جج کو جوڈیشل ورک سے روکا گیا، عبوری حکم کے ذریعے جج کو عدالتی امور سے روکا نہیں جا سکتا۔

منیر اے ملک نے دلیل دی کہ یک طرفہ طور پر فیصلہ کیا گیا جج کے خلاف رٹ نہیں ہو سکتی، حال ہی میں جسٹس جمال مندوخیل نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ جج جج کے خلاف رٹ نہیں کر سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وہ جج کے پرسنل کنڈکٹ سے متعلق ہے آپ پورا فیصلہ پڑھ لیں۔ایڈوکیٹ میاں داؤد نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے سجاد علی شاہ کو جوڈیشل ورک سے روکا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو کام سے روکنے کا آرڈر آرٹیکل 184/3 کی درخواست پر دیا گیا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ کیس کے حقائق اس کیس سے الگ ہیں۔

منیر اے ملک نے استدعا کی کہ آئینی بینچ جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم نامے معطل کرے، کام سے روکنے کا حکم نامہ معطل نا کیا گیا تو غلط سگنل جائے گا، کیونکہ جج نے ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کر رکھی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ جج کو جوڈیشل ورک سے روکا نہیں جا سکتا۔سماعت کے اختتام پر جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے درمیان مشاورت ہوئی، ججز کی مشاورت کے بعد سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم نامہ معطل کر دیا۔

ممبر اسلام آباد بار کونسل علیم عباسی نے کہا کہ ہم نے بھی اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پارٹی تھی مرکزی درخواست گزار جسٹس طارق جہانگیری ہیں۔وکلاء نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد بار کونسل، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپریم کورٹ دفتر کا اپنا طریقہ کار ہے جب درخواستوں پر نمبر لگیں گے ہمارے سامنے فیکس ہو جائیں گی۔

وکیل جسٹس طارق جہانگیری منیر اے ملک نے کہا کہ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے ہی ہائی کورٹ کے جج کو عدالتی کام سے روکا ہو، جسٹس جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم نامے میں طے شدہ قانون کو نظر انداز کیا گیا۔منیر اے ملک نے کہا کہ جج کو کام سے روکنے کے حکم نامے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا، 10 جولائی 2024 کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس جہانگیری کے خلاف رٹ دائر ہوئی، ایک سال سے زائد وقت ہو چکا ہے رجسٹرار آفس کے اعترضات ابھی تک برقرار ہیں، جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف رٹ دائر ہونے کے بعد کچھ واقعات بھی پیش آئے جو عدالت کے سامنے رکھوں گا۔

منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر ہو کر ائے، پانچ ججوں نے ٹرانسفر کے خلاف 184/3 کے تحت درخواست دائر کی، ججز ٹرانسفر کو درست قرار دیا گیا جس کے خلاف اپیل تاحال زیر التوا ہے، جس جج کی ٹرانسفر کے خلاف ججز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اسی چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے 16 سمتبر کو جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکا۔

منیر اے ملک نے استدلال کیا کہ جس درخواست پر طارق جہانگیری کو کام سے روکا گیا اس پر ابھی تک اعتراضات بھی باقی ہیں اور دوسرے فریق کو سنا بھی نہیں گیا، 16 ماہ ہو گئے ہیں ابھی تک اعتراضات برقرار ہیں۔سپریم کورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ معطل کردیا، عدالت نے فریقین اور اٹارنی جنرل دفتر کو نوٹس جاری کردیا، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو بھی نوٹس جاری کردیا اور کیس کی سماعت (آج) منگل تک ملتوی کردی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روکنے کا فیصلہ معطل کرنے کا عدالتی حکم نامہ جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ وکیل منیر اے ملک درخواست گزار کیطرف سے پیش ہوئے، وکیل کے مطابق جج کیخلاف کووارنٹو درخواست میں جوڈیشل ورک سے روکا نہیں جا سکتا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف اپیل میں معاملہ آئینی و قانونی تشریح کا ہے، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کر رہے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کا 16 ستمبر کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے۔