میانمار کا بحران علاقائی استحکام کے لیے خطرہ، یو این چیف

یو این بدھ 1 اکتوبر 2025 03:45

میانمار کا بحران علاقائی استحکام کے لیے خطرہ، یو این چیف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 01 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ میانمار کا بحران لاکھوں لوگوں کے انسانی حقوق، وقار اور سلامتی کو تاراج کر کے علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔

میانمار کی روہنگیا اقلیت کی حالت زار پر اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اس بحران کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی قانون کے مطابق شہریوں کا تحفظ، انسانی امداد تک رسائی کی ضمانت دینا اور پناہ گزینوں اور ان کے میزبان علاقوں کی مدد کے لیے مالی وسائل کی فراہمی ضروری ہے۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک کی صدارت میں ہونے والی اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام، سربراہان ریاست و حکومت اور روہنگیا لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر کئی بریفنگ دی گئیں اور میانمار کی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹوں میں 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد ملک میں فوج کے لیے جبری بھرتی، جنسی تشدد، فضائی حملوں، بڑے پیمانے پر پھیلی بھوک اور نقل مکانی کے بارے میں بتایا گیا۔

امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ مظالم کا شکار روہنگیا اقلیت کے لیے امدادی وسائل میں تیزی سے کمی آ رہی ہے جس کے باعث مختلف ممالک بشمول بنگلہ دیش میں یہ لوگ غذائی قلت کا شکار ہونے لگے ہیں اور بہتر مستقبل کی تلاش میں خطرناک سمندری سفر اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔

کانفرنس میں سیکرٹری جنرل کا بیان ان کے دفتر کے سربراہ کورٹنی ریٹری نے پڑھ کر سنایا۔

شرمناک بحران

اینالینا بیئربوک نے روہنگیا لوگوں کو درپیش تکالیف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 50 لاکھ سے زیادہ روہنگیا مرد، خواتین اور بچے کسی نہ کسی صورت میں تشدد، افلاس، نقل مکانی اور دیگر تکالیف سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے کاکس بازار کیمپ میں ہی 8 لاکھ روہنگیا بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

ان لوگوں کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے درکار وسائل کی شدید قلت ہے اور رواں سال ضروریات کے مقابلے میں اب تک صرف 12 فیصد وسائل ہی دستیاب ہو سکے ہیں۔

انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ امداد میں اضافہ کریں اور مسئلے کا ایسا سیاسی حل تلاش کریں جو روہنگیا کی محفوظ، رضاکارانہ اور پائیدار واپسی کو ممکن بنا سکے۔

انصاف کا مطالبہ

کانفرنس میں 'میانمار ویمنز پیس نیٹ ورک' کی بانی وائی وائی نو نے مندوبین کو بتایا کہ روہنگیا کے خلاف مظالم کا سلسلہ 2017 میں ہی ختم نہیں ہوا جب سات لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ میانمار میں اس تشدد سے جان بچا کر بنگلہ دیش گئے تھے جسے اس وقت اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے نسلی تطہیر کی کلاسیکی مثال قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ ناصرف ملکی فوج بلکہ اس کے خلاف لڑنے والے مسلح گروہ دونوں ہی روہنگیا کے قتل، عسکری مقاصد کے لیے بھرتیوں، جنسی تشدد اور بھوک کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو روہنگیا کا انخلا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک میانمار میں ایک بھی روہنگیا باقی نہیں بچتا۔

انہوں نے سرحد پار انسانی امداد کے راستے کھولنے، روہنگیا پر مظالم ڈھانے والوں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور جنگی جرائم پر مقدمات چلانے کا مطالبہ کیا۔

انسانیت کا امتحان

میانمار میں تشدد کا شکار ریاست راخائن میں 'اراکان یوتھ پیس نیٹ ورک' کے بانی روفیق حسین نے جبری نقل مکانی اور تشدد کی اپنی داستان سنائی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کس طرح فوج نے روہنگیا مردوں اور لڑکوں کو زبردستی عسکری خدمات پر مجبور کیا، اکثر انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا اور صرف ایک ہفتے میں کم از کم 400 افراد قتل کر دیے گئے۔

انہوں نے دیہاتوں کو جلانے اور ڈرون حملوں کی ہولناک تفصیلات بیان کیں، جن میں مئی 2024 کا وہ قتل عام بھی شامل تھا جس میں صرف ایک دن میں دو لاکھ افراد بے گھر ہو گئے تھے۔

انہوں نے شمالی راخائن میں بین الاقوامی نگرانی میں ایک محفوظ زون کے قیام کا مطالبہ کیا اور کہا کہ روہنگیا برادری کے لیے عدم تحفظ کے اس بحران کا خاتمہ نہ صرف جنرل اسمبلی بلکہ انسانیت کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہے۔

"

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میانمار کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ جولی بشپ نے واضح کیا کہ میانمار کا کثیر الجہتی بحران 2021 کی فوجی بغاوت سے پیدا ہونے والے سیاسی انتشار سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا۔ چونکہ لڑائی ختم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیتے اس لیے رواں سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات ملک میں امن لانے کے بجائے مزید تشدد کو ہوا دیں گے۔