امریکی صدر کا یکم نومبر سے چین پراضافی 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان

ہفتہ 11 اکتوبر 2025 22:00

امریکی صدر کا یکم نومبر سے چین پراضافی 100 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اکتوبر2025ء) مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم نومبر چین پر 100 فیصد اضافی ٹیرف اور ہر قسم کے اہم سافٹ ویئر پر درآمدی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کردیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’چین نے تجارت کے حوالے سے انتہائی جارحانہ مؤقف اختیار کیا ہے، اس نے دنیا کو ایک نہایت سخت اور دھمکی آمیز خط بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ یکم نومبر 2025 سے مؤثر طور پر تقریباً تمام مصنوعات پر بڑے پیمانے پر برآمدی پابندیاں عائد کرے گا، یہاں تک کہ ان مصنوعات پر بھی جو چین میں بنتی ہی نہیں۔

امریکی صدر نے بتایا کہ چین کا یہ فیصلہ تمام ممالک پر لاگو ہوگا، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا اور ظاہر ہے کہ یہ ان کا برسوں پرانا منصوبہ تھا، انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تجارت میں ایسا قدم ناقابلِ یقین ہے اور دیگر ممالک کے ساتھ برتاؤ کے لحاظ سے ایک اخلاقی شرم کی بات ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ چین کے اس بے مثال اقدام کے پیشِ نظر میں امریکا کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ یکم نومبر 2025 سے (یا اس سے پہلے، اگر چین نے مزید کوئی کارروائی یا تبدیلی کی) امریکا، چین پر موجودہ محصولات کے علاوہ 100 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرے گا، اسی تاریخ سے امریکا ہر قسم کے اہم سافٹ ویئر پر بھی برآمدی پابندیاں نافذ کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ چین نے ایسا قدم اٹھایا ہے، مگر انہوں نے کر دکھایا ہے اور باقی تاریخ ہے۔قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور پوسٹ میں کہا کہ چین میں کچھ بہت عجیب باتیں ہو رہی ہیں، وہ حد درجہ جارحانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک کو خطوط بھیج رہے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ وہ نایاب معدنیات اور پیداوار کے تقریباً ہر جزو پر برآمدی پابندیاں لگانا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ ان چیزوں پر بھی جو چین میں بنتی ہی نہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ اس نوعیت کا واقعہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، اس سے عالمی منڈیوں میں شدید رکاوٹ پیدا ہوگی اور تقریباً ہر ملک بالخصوص خود چین کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی،ہمیں دیگر ممالک کی طرف سے پیغامات موصول ہوئے ہیں جو اس غیر متوقع تجارتی جارحیت پر شدید برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں، اس لیے یہ تجارتی قدم اور بھی حیران کن ہے، مجھے ہمیشہ محسوس ہوتا رہا کہ وہ موقع کے انتظار میں ہیں، اور اب ہمیشہ کی طرح میری بات درست ثابت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو چین کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونے دینا چاہیے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہی ان کا دیرینہ منصوبہ تھا، جس کا آغاز انہوں نے مقناطیسوں اور دیگر عناصر کے ذخیرے جمع کر کے اجارہ داری قائم کرنے سے کیا، یہ بدنیتی پر مبنی اور انتہائی جارحانہ اقدام ہے۔امریکی صدر نے کہا کہ امریکا کے پاس بھی کئی شعبوں میں مضبوط اجارہ داری موجود ہے، جو چین سے کہیں زیادہ وسیع اور طاقتور ہے، میں نے بس ان کا استعمال نہیں کیا، کیونکہ اب تک کبھی اس کی ضرورت پیش نہیں آئی‘۔

انہوں نے کہا کہ چین کا بھیجا گیا خط کئی صفحات پر مشتمل ہے جس میں تفصیل کے ساتھ ہر وہ عنصر درج ہے جس کی برآمد روکنے کا وہ ارادہ رکھتے ہیں، جو چیزیں معمول کا حصہ تھیں، اب معمول کا حصہ نہیں رہیں، میں نے صدر شی سے بات نہیں کی، کیونکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، یہ اقدام نہ صرف میرے لیے بلکہ آزاد دنیا کے تمام رہنماؤں کے لیے حیران کن ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ میری صدر شی سے دو ہفتے بعد اے پیک اجلاس میں جنوبی کوریا میں ملاقات طے تھی، لیکن اب اس کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی۔انہوں نے کہا کہ چین کے یہ خطوط خاص طور پر اس دن بھیجے گئے جب مشرقِ وسطیٰ میں تین ہزار سال کی افراتفری اور جنگوں کے بعد امن قائم ہوا، میں سوچتا ہوں، کیا یہ اتفاق تھا انہوںنے کہاکہ چین کی جانب سے اس جارحانہ ’حکم نامے‘ کے ردِعمل میں، بطور امریکی صدر مجھے مالی طور پر جوابی قدم اٹھانا پڑے گا، جس ہر عنصر پر انہوں نے اجارہ داری قائم کی ہے، اس کے بدلے میں ہمارے پاس دو ہیں، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ نوبت آئے گی، مگر بالآخر شاید وقت آ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ وقتی طور پر تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے، مگر انجام کار یہ امریکا کے لیے نہایت فائدہ مند ہوگا۔امریکی صدر نے کہا کہ فی الحال ہم جن پالیسیوں پر غور کر رہے ہیں، ان میں چین سے آنے والی مصنوعات پر محصولات میں زبردست اضافہ شامل ہے، اس کے علاوہ کئی دیگر جوابی اقدامات بھی سنجیدگی سے زیرِ غور ہیں۔