جدید اور کم لاگت ٹیکنالوجیز کے استعمال سے زرعی پیداوار میں اضافہ اور آپریشنل کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے، چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹ

جمعرات 16 اکتوبر 2025 21:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 اکتوبر2025ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید مسرور احسن کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس منعقد ہوا۔اجلاس میں سینیٹر پونجو بھیل، سینیٹر عبد الکریم، سینیٹر دنیش کمار اور وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کا بنیادی ایجنڈا "نیشنل ایگری ٹریڈ اینڈ فوڈ سیفٹی اتھارٹی آرڈیننس 2025" پر غور و خوض تھا۔ وفاقی وزیر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ مجوزہ اتھارٹی زرعی اجناس کی درآمد و برآمد سے متعلق تمام معاملات کی نگرانی کرے گی اور یہ یقینی بنائے گی کہ برآمدی اجناس بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے وزارت کی جانب سے اتھارٹی کے قیام کی تجویز کو سراہا اور کہا کہ یہ اقدام پاکستان کی زرعی برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مسابقت کے قابل بنانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔

اجلاس میں مجوزہ اتھارٹی کے ڈھانچے، پس منظر اور شراکت دار اداروں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کی سربراہی گریڈ 22 کے افسر کریں گے جن کے پاس متعلقہ تعلیمی اہلیت اور تجربہ ہوگا۔ مزید بتایا گیا کہ ماضی میں جن افسران پر الزامات عائد تھے انہیں نئی اتھارٹی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔چیئرمین کمیٹی نے گزشتہ اجلاسوں کی سفارشات پر عملدرآمد کی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور وزارت کو ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں مکمل ریکارڈ اور پیشرفت رپورٹ پیش کی جائے۔

سینیٹر دنیش کمار نے غیر معیاری چھالیہ کی درآمد کے مسئلہ پر تشویش کا اظہار کیا جس کی مالیت تقریباً 3 ارب روپے سالانہ بتائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیسٹنگ لیبارٹریاں معیار کی جانچ میں ناکام رہی ہیں اور درآمدکنندگان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں کوئی لیبارٹری ان کے مال کا معیار چیلنج نہیں کر سکتی۔وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے بتایا کہ اس حوالے سے سخت اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ہدایت دی کہ چھالیہ کی جانچ سرٹیفائیڈ لیبارٹریوں میں ایچ ای وی ٹیسٹ کے ذریعے کی جائے تاکہ معیار کو یقینی بنایا جا سکے۔

مزید برآں کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس وقت پاکستان کے پاس 19 ٹڈی دل کنٹرول طیارے موجود ہیں جن میں سے صرف چار فعال ہیں۔ باقی 15 غیر فعال طیارے نیلامی کے لئے پیش کئے گئے تھے تاہم موصول ہونے والی بولیاں تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے نیلامی عمل مکمل نہ ہو سکا۔ کسی بھی ادارے نے یہ طیارے لینے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔وفاقی وزیر نے تجویز دی کہ ڈرون ٹیکنالوجی کو طیاروں کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جائے کیونکہ یہ زیادہ مؤثر اور کم خرچ ثابت ہوگی۔چیئرمین سینیٹر سید مسرور احسن نے اس تجویز کی مکمل تائید کرتے ہوئے کہا کہ جدید اور کم لاگت ٹیکنالوجیز کے استعمال سے زرعی پیداوار میں اضافہ اور آپریشنل کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔