اردن کے جنسی درندگی کے خلاف قانون پر شدید تنقید ، خواتین سراپا احتجاج،جنسی ہراسانی مرتکب کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کے بجائے متاثرہ خاتون کو نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے

ہفتہ 5 دسمبر 2015 09:34

عمان(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5دسمبر۔2015ء)اردن میں جنسی جرائم اور خواتین کوہراساں ہونے کیلئے فعال کیاگیا آئین کا آرٹیکل سخت تنقید کی زدمیں ہے کیونکہ اس آرٹیکل کے مطابق جنسی ہراسانی مرتکب کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کے بجائے متاثرہ خاتون کو نکاح پر مجبور کیا جاتا ہے،اس طرح مملکت میں اس جرم کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہو رہی ہیں بلکہ متاثرہ خواتین کو انصاف کی فراہمی میں بھی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

العربیہ کے مطابق آئین کا آرٹیکل 308 ملک میں جنسی جرائم اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی حوصلہ افزائی کا موجب بن رہا ہے اور دسیوں خواتین اس’آئینی نا انصافی‘ کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، جب کوئی متاثرہ خاتون اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کا کیس پولیس کے پاس لے کر جاتی ہے تو پولیس ملزم کے خلاف کارروائی کے بجائے متاثرہ خاتون کو اسی ملزم سے نکاح پر مجبور کرتی ہے۔

(جاری ہے)

حال ہی میں سیکڑوں خواتین سماجی کارکنوں اور معاشرتی بہبود کے لیے سرگرم 50 تنظیموں نے ایک مشترکہ یاداشت پر دستخط کرنے کے بعد حکومت سے آرٹیکل 308 کی منسوخی کا مطالبہ کیا اور سخت قانون منظور کرنے کا مطالبہ کیا۔رپورٹ کے مطابق ایک 22سالہ لڑکی کا کیس مشہور ہوا جو ایک امیرزادے کے ہاں ملازمہ تھی اور مالک نے جبری جنسی زیادتی کا نشانہ بناڈالاجس کے نتیجے میں لڑکی حاملہ ہوگئی مگر خوف کی وجہ سے کسی کو بھی اس ضمن میں بتانے سے کتراتی رہی ، بالآخر جب حمل کا انکشاف ہوا تو اہل خانہ نے ملزم سے بات کی لیکن شنوائی نہ ہونے پر معاملہ پولیس کے پاس پہنچ گیا، پولیس نے ڈی این اے کے ذریعے یہ ثابت بھی کر لیا یہ حمل اسی شخص کا ہے مگر الٹا لڑکی پر دباؤ ڈالنے لگی کہ وہ 49 سالہ شخص کے ساتھ شادی پر آمادہ ہو جائے کیونکہ اس نوعیت کے کیسوں آئین میں اس کے سوا اور کوئی حل نہیں۔

متعلقہ عنوان :