ہنگری نے سربیا کی سرحد پر جدید باڑکی تعمیر شروع کردی

اسمارٹ باڑ رات میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے کیمروں اور حرکت کو جانچنے والے سینسرز کی حامل ہو گی

منگل 28 فروری 2017 19:28

بڈاپسٹ(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ مارچ ء)ہنگری نے سربیا کی سرحد پر جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل دوسری باڑ کی تعمیر کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ باڑ رات میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے کیمروں اور حرکت کو جانچنے والے سینسرز کی حامل ہو گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق ہنگری کی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ مہاجرین کو ملک میں داخلے سے روکنے کے لیے سربیا کی سرحد پر ایک جدید ترین ’دیوار‘ کی تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا ۔

اس باڑ میں حرکت اور حرارت کی جانچ کے حامل سینسرز کے ساتھ ساتھ رات میں نگرانی کرنے والے کیمرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سراہتے ہیں اور مہاجرین کو ’زہر‘ قرار دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ برس اگست میں اوربان نے سربیا کے ساتھ سرحد پر تین میٹر بلند اس باڑ کی تعمیر کا اعلان کیا تھا، جو مہاجرین کو ملک میں داخلے سے روکنے کا کام کرے گی۔

اس سے قبل سن 2015 میں بھی ہنگری نے سربیا کے ساتھ 175 کلو میٹر طویل اپنی سرحد پر باڑ تعمیر کی تھی۔ سن 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے عروج کے وقت ہنگری وہ پہلا یورپی ملک تھا، جس نے تارکین وطن کے لیے اپنی ملکی سرحدیں بند کی تھیں اور یہ باڑ تعمیر کی تھی۔ تاہم اب نئی دیوار سے پرانی باڑ کو مزید مضبوط بنایا جا رہا ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس نئی باڑ میں ہر دس سے پندرہ سینٹی میٹر کے فاصلے پر سینسرز لگے ہوئے ہوں گے، جو کسی بھی مہاجر کے باڑ کے قریب آنے پر الارم بجانا شروع کر دیں گے۔

اوربان کے چیف سکیورٹی مشیر گیورگی بکونڈی نے پیر کے روز ایک مقامی اخبار سے بات چیت میں اس باڑ کی تعمیر کے آغاز کی تصدیق کر دی۔حکومتی بیان میں بتایا گیا ہے کہ کلیبیا کے علاقے میں اس باڑ کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے اور ستون کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس باڑ کی تعمیر میں قیدیوں سے کام لیا جا رہا ہے اور اس کا قریب ساڑھے دس کلومیٹر طویل حصہ گزشتہ برس نومبر میں ہی مکمل کر لیا گیا تھا۔

بکونڈی کا کہنا تھا کہ اس باڑ کی تعمیر کے بعد غیرقانونی طور پر ملک میں داخلے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کا مکمل تدارک ممکن ہو جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ باڑ اگلے دو ماہ میں مکمل کر لی جائے گی، تاکہ موسم گرما میں ممکنہ طور پر مہاجرین کی نئی لہر کو ملک میں داخلے سے روکا جا سکے۔