Depression - Article No. 2487

Depression

ڈپریشن - تحریر نمبر 2487

دنیا کی تقریباً ایک ارب آبادی ذہنی امراض کا شکار ہے،ڈبلیو ایچ او

جمعہ 8 جولائی 2022

ڈاکٹر آصفہ اسلم
کوئی بھی شخص خود اب نارمل نہیں بنتا بلکہ تجربات اسے اب نارمل بنا دیتے ہیں۔اگر ہم خوشگوار تجربات کا سامنا کریں گے تو ہماری سوچ مثبت ہو گی ورنہ منفی سوچ ہی اجاگر ہو گی۔ذہنی دباؤ،تفکر،اداسی،اینگزائٹی اور معمولات زندگی میں عدم دلچسپی بہت نارمل انسانی رویے ہیں۔تاہم ان علامات کا دورانیہ بڑھنے اور شدت آنے سے باہمی تعلقات اور معمولات زندگی متاثر ہونے لگ جائیں تو پھر انہیں ایک بیماری کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
ذہنی امراض جسمانی امراض کی طرح ہوتے ہیں جن کا علاج بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا کہ جسمانی بیماری کا۔ہمارے معاشرے میں ذہنی تکالیف کو سرے سے امراض سمجھا ہی نہیں جاتا۔ذہنی بیماریوں کو ہم پاگل پن کہہ کر ہنسی میں اُڑا دیتے ہیں جبکہ ان کے اثرات بہت ہی سنگین ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

لاپرواہی یا بدنامی کے ڈر سے بہت سے لوگ علاج سے محروم رہ جاتے ہیں۔نفسیاتی معالج سے مشورے لینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کے کوئی پاگل ہو گیا ہے۔

ذہن پر ماحول کا اثر بھی ہوتا ہے اس میں والدین کی تربیت،بچپن اور اسکول میں گزرا وقت،لڑائی جھگڑے،ماں باپ کا انتقال،اسقاط حمل،طلاق،جنسی،جسمانی اور جذباتی زیادتی اور جو زندگی میں پریشانیاں آتی ہیں۔شادی،تعلق،مالی حالات،آسمانی آفات یہ سب بھی ذہنی امراض کی وجوہات بنتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب لوگ ذہنی امراض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے یہ تازہ ترین اعداد و شمار اس حوالے سے اور بھی زیادہ پریشان کن ہیں کہ ان ایک ارب افراد میں سے ہر ساتواں شخص نوجوان ہے۔ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے پہلے سال میں ڈپریشن اور بے چینی جیسے مسائل کی شرح میں 25 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔
رواں صدی میں ذہنی صحت کے سب سے وسیع جائزے میں عالمی ادارہ صحت نے مزید ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بگڑتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کریں۔
عالمی ادارہ صحت نے مثبت اور پائیدار ترقی کے لئے ذہنی صحت کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے اور ان کی مثالیں دیتے ہوئے انہیں جلد از جلد لاگو کیے جانے کی ترغیب دی۔عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہا کہ ہر ایک فرد کی زندگی کسی نہ کسی کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اچھی ذہنی صحت،اچھی جسمانی صحت کی عکاس ہوتی ہے اور یہ نئی رپورٹ ہمارے رویوں میں تبدیلی کو ناگزیر بناتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ذہنی صحت اور صحت عامہ،انسانی حقوق اور سماجی اقتصادی ترقی کے درمیان تعلق کو ختم نہیں کیا جا سکتا جس کا مطلب ہے کہ ذہنی صحت کے حوالے سے پالیسی اور حکمت عملی کو تبدیل کرنا چاہیے تاکہ ہر جگہ افراد،کمیونٹیز اور ممالک کو حقیقی اور اہم فوائد میسر آ سکیں۔انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت کے لئے سرمایہ کاری سب کے لئے بہتر زندگی اور مستقبل میں سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے 2019ء کے تازہ ترین دستیاب عالمی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کی آمد سے پہلے ہی ذہنی صحت کے علاج کے ضرورت مند افراد کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کو موٴثر،سستی اور معیاری سہولیات تک رسائی حاصل تھی۔ڈبلیو ایچ او نے مثال پیش کی کہ دنیا بھر میں نفسیاتی امراض میں مبتلا 70 فیصد سے زائد افراد کو وہ مدد نہیں ملتی جس کی انہیں ضرورت ہے۔

امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق صحت کی دیکھ بھال تک غیر مساوی رسائی سے بھی نمایاں ہوتا ہے،زیادہ آمدنی والے ممالک میں نفسیاتی بیماری کے شکار ہر 10 میں سے 7 افراد علاج کروا لیتے ہیں جبکہ کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح صرف 12 فیصد ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق ڈپریشن کے علاج کے حوالے سے یہ صورتحال زیادہ ڈرامائی ہے،زیادہ آمدنی والے ممالک سمیت تمام ممالک میں ڈپریشن کے شکار صرف ایک تہائی افراد کو باقاعدہ ذہنی صحت کی دیکھ بھال ملتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے مزید کہا کہ زیادہ آمدنی والے ممالک 23 فیصد کیسز میں ڈپریشن کا ’کم سے کم مناسب‘علاج فراہم کرتے ہیں لیکن کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ شرح محض 3 فیصد ہے۔سربراہ ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ ہمیں دماغی صحت کے حوالے سے آگاہی اور اس کی حفاظت کے لئے اپنے رویوں،عمل اور طریقہ کار کو تبدیل کرنے اور اس حوالے سے ضرورت مند افراد کی مدد اور ان کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ذہنی صحت پر اثر انداز ہونے والے ماحول کو تبدیل کرکے اور کمیونٹی کی سطح پر ذہنی صحت کی عالمی سہولیات کی رسائی دے کر ایسا کر سکتے ہیں اور کرنا چاہیے۔

Browse More Depression