Depression - Article No. 2531

Depression

ڈپریشن - تحریر نمبر 2531

دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتا ہوا طبی مسئلہ

پیر 5 ستمبر 2022

ڈاکٹر سید اکرام
ہم انسان ہیں۔روبوٹ نہیں۔اسی لئے ہم میں خیالات بھی ہیں،احساسات بھی اور جذبات بھی!ہم خوش بھی ہوتے ہیں،اور کبھی کبھی اُداسی،مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہوتے ہیں۔عموماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔لیکن اگر یہ اُداسی،بیزاری اور چڑچڑا پن روزانہ طاری رہے اور ہفتوں اور مہینوں تک جاری رہے تو یہ ڈپریشن جیسے مرض کی علامت ہو سکتی ہے۔
ڈپریشن کیا ہوتا ہے،کیوں ہوتا ہے،کیسے ہوتا ہے،کیسے پہچانا جاتا ہے؟ڈپریشن کہتے ہیں یا سیت یا افسردگی کی کیفیت کو۔حالانکہ نفسیاتی امراض میں سب سے زیادہ عام اور خطرناک مرض ڈپریشن ہے لیکن اس کے بارے میں ہمارے معاشرے میں آگہی بہت کم ہے۔

(جاری ہے)

بہت سارے افراد اس کو شخصیت کی خامی کے طور پر دیکھتے ہیں کہ فلاں حساس طبیعت کا مالک ہے یا یہ ایک عارضی کیفیت ہے یا یہ کہا جاتا ہے کہ کسی پر جن بھوت آ گیا ہے۔

بعض اوقات تو ہمارے اپنے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ظاہری طور پر بہت خوش لگ رہے ہیں،دوسروں سے ملتے جلتے یا ہنسی مذاق کرتے ہیں تو ہم کو کیسے ڈپریشن ہو سکتا ہے؟
اسی لئے اکثر یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں۔”یہ سب تمہارا وہم ہے،پریشانی کی کوئی بات نہیں’یا‘خوش رہا کرو،تم بہتر محسوس کرو گے۔“
کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی سے ذکر کریں کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہیں یا اس کا علاج کروا رہے ہیں تو اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ ڈپریشن کوئی بیماری نہیں بلکہ کردار کی کمزوری ہے۔
جی نہیں جناب۔ڈپریشن بالکل ایک ”بیماری ہے“،جیسا کہ،بلڈ پریشر،ذیابیطس یا دیگر امراض اور یہ بیماری کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے چاہے وہ اندر سے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔اور جیسے اور بیماریوں کے مریض ہمدرد اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں اسی طرح سے ڈپریشن کے مریض بھی توجہ اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں،تنقید اور مذاق اڑائے جانے کے نہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے جبکہ دنیا بھر میں سالانہ تقریباً آٹھ لاکھ افراد ذہنی دباؤ کی وجہ سے خودکشی کر لیتے ہیں جبکہ تقریباً بیس فیصد لوگ ڈپریشن کے باعث دیگر نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں ڈپریشن میں مبتلا کالج کے طلبا کی تعداد دُگنی سے زیادہ ہو گئی ہے۔
بوسٹن یونیورسٹی کے محققین کو ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ 2013ء سے 2021ء تک ڈپریشن میں مبتلا طلبا کی تعداد میں 135 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس کے ساتھ اس ہی دورانیے میں بے چینی کے کیسز میں 110 فیصد اضافہ بھی دیکھا گیا۔کووڈ۔19 کی وجہ سے لاک ڈاؤن،اسکولوں کے بند ہونے اور روزمرہ زندگی میں خلل اس صورتحال کی وجوہات میں سے کچھ ہیں،لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ مسائل اس سے کہیں گہرے ہیں۔
ماہرین نے مزید بتایا کہ جن سالوں میں ایک شخص کالج میں زیرِ تعلیم ہوتا ہے اتفاقاً ان ہی سالوں میں کسی شخص میں زندگی بھر ساتھ رہنے والی ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔بوسٹن یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سارہ لِپسن نے ایک بیان میں کہا کہ کالج کا دورانیہ ان مسائل کے مبتلا ہونے کا سب سے اہم وقت ہے۔یہ عمر وہ ہوتی ہے جب زندگی بھر رہنے والے ذہنی مسائل پنپنا شروع ہوتے ہیں۔
آخری وقت تک رہنے والے 75 فیصد ذہنی مسائل 24 سال کی عمر سے ہونا شروع ہوتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ایک تحقیق کے مطابق کم از کم تین فیصد آبادی ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا شکار ہے اور ہر چوتھے گھر میں ایک ذہنی مریض موجود ہے۔سو ڈپریشن میں کیا ہوتا ہے؟جب مایوسی اور اُداسی کا غلبہ بہت دنوں تک رہے اور اس کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روزمرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں اور متاثرہ شخص ایک خول میں بند ہو کر رہ جائے تو اسے ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔
طبی اعتبار سے اگر ہم بات کریں تو اُداسی اس وقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب اُداسی کا احساس کم از کم مسلسل دو ہفتے تک برقرار رہے اور ختم ہی نہ ہو اور اُداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روزمرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں اور آپ پر منفی خیالات اور خواہشات کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایک تازہ تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈپریشن یا ذہنی تناؤ صرف ”سیروٹونن“ نامی ہارمون کی کمی یا بے ترتیبی کے باعث نہیں ہوتا،اس کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
اب تک زیادہ تر ماہرین کا خیال تھا کہ ”سیروٹونن“ نامی ہارمونز جنہیں ”ہیپی ہارمونز“ بھی کہا جاتا ہے،ان کی کمی یا بے ترتیبی کی وجہ سے لوگوں میں ذہنی تناؤ،ڈپریشن یا موڈ کی خرابی جیسے عوامل ہوتے ہیں۔”سیروٹونن“ نامی ہارمون خون میں موجود خصوصی کیمیکل ہے جو کہ انسانی اعصابی اور ہاضمے کو نظام کو بہتر بنانے سمیت انسان کی سوچ،یادداشت اور موڈ پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
”سیروٹونن“ کی کمی یا اس کی بے ترتیبی کو کسی بھی انسان میں موڈ کی خرابی،ذہنی تناؤ یا ڈپریشن کا سبب سمجھا جاتا رہا ہے اور بظاہر ٹیسٹس سے ڈپریشن کے شکار افراد میں اس کیمیکل کی کمی بھی نوٹ کی جاتی ہے۔دنیا بھر کے ڈاکٹرز ڈپریشن کے شکار افراد کو ”سیروٹونن“ نامی ہارمون یا کیمیکل کو بڑھانے یا اسے بہتر بنانے کی دوائیاں دیتے رہے ہیں،جن سے متاثرہ افراد خوشی محسوس کرتے رہے ہیں۔
تاہم اب ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن صرف ”سیروٹونن“ نامی کیمیکل یا ہارمون کی کمی سے نہیں ہوتا۔سائنسی جریدے ”نیچر“ کے مالیکولر سیکارٹری‘میں شائع ماہرین کی تحقیق کے مطابق ”سیروٹونن“ نامی کیمیکل یا ہارمون کی مقدار ان افراد میں بھی ویسے ہی پائی گئی جنہیں ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کی کوئی شکایت نہیں تھی۔
تحقیق کے مطابق ماہرین نے ڈپریشن کی وجوہات جاننے کے لئے ماضی میں کی جانے والی ڈیڑھ درجن تحقیقات کا مطالعہ کیا،جن کے نتائج حیران کن تھے۔
ماہرین نے ایسی تحقیقات کا جائزہ لیا جن میں ڈپریشن کے شکار افراد اور صحت مند افراد کا ڈیٹا تھا اور ان رپورٹس میں ”سیروٹونن“ نامی کیمیکل یا ہارمون سے متعلق معلومات بھی دستیاب تھی۔ماہرین نے نوٹ کیا کہ صحت مند افراد میں بھی ”سیروٹونن“ نامی کیمیکل یا ہارمون کی ویسی ہی مقدار موجود تھی جو کہ ڈپریشن کے شکار افراد میں تھی۔
ماہرین نے اخذ کیا کہ صرف ”سیروٹونن“ کی کمی یا بے ترتیبی کو ڈپریشن سے جوڑنا درست نہیں،اس کے دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔ماہرین نے اپنی تحقیق میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا کہ ڈپریشن کے شکار افراد کو ”سیروٹونن“ کی مقدار بڑھانے یا بہتر بنانے کی دوائیاں دی جانی چاہیے یا نہیں؟
تاہم ماہرین کی تازہ تحقیق کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ ڈپریشن سے متعلق اب تک سمجھی جانے والی تمام باتیں مفروضہ نکلیں اور اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ کیا اب ڈپریشن کے شکار افراد کو ”سیروٹونن“ نامی کیمیکل بڑھانے یا بہتر بنانے کی دوائیاں دی جانی چاہیے یا نہیں۔

Browse More Depression