Aam Phalon Ka Sardar - Article No. 2455

Aam Phalon Ka Sardar

آم ۔ پھلوں کا سردار - تحریر نمبر 2455

کیا بچے کیا بوڑھے،آم سب کا من پسند پھل ہے

جمعرات 2 جون 2022

ایم۔شفیق احمد
گرم و نیم گرم آب و ہوا کے خطوں کے پھلوں کے بادشاہ سلامت،یعنی آم اپنے بے شمار مداحوں کو عرصے تک اپنی دید سے محروم رکھنے کے بعد بالآخر تشریف لے آئے ہیں۔پاکستان کے بازاروں میں مئی کے وسط سے ان کی آمد نے دھوم مچا دی ہے۔آم اپریل کے آخر سے ہی اپنے چاہنے والوں کی طرف سفر کا ارادہ کر لیتے ہیں،جنوبی پاکستان اور جنوبی ہند میں بھی یہ ہر طرف جلوہ فگن ہوتے ہیں۔
گاؤں دیہات میں واقع وسیع باغات سے پہلے کچے آم (کیریاں) شہروں کی طرف روانہ کیے جاتے ہیں۔انھیں دیکھ کر ان کے متوالوں میں ہل چل مچ جاتی ہے اور لوگ ان کی آمد کے ساتھ ہی لذت کام و دہن کے پروگرام بنانے لگتے ہیں۔آم دنیا کا غالباً وہ واحد پھل ہے جس کی آمد کے ساتھ ہی برصغیر پاک و ہند میں تقریبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

آم کی کاشت برصغیر پاک و ہند میں پانچویں،چھٹی صدی عیسوی سے کی جا رہی ہے۔

آج شاید ہی ایسا کوئی گھر،ہوٹل اور طعام خانہ ہو کہ جہاں آم کو دیکھتے ہی لوگوں کے چہرے نہ کھل اُٹھتے ہوں اور پھر اسے کھاتے ہی جسم میں ایک نئی اُمنگ اور ترنگ نہ آ جاتی ہو۔
آم کی کاشت کا سلسلہ بہت وسیع ہے۔پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا سے آگے بڑھیں تو پنجاب کے میدانوں میں اس کے بے شمار گھنیرے باغات اپنے دامن میں آم سمیٹے نظر آتے ہیں۔
انھیں دیکھتے ہی بڑے بھی بچوں کی طرح مچلنے لگتے ہیں اور اس سے آگے سندھ کی طرف مڑیے تو یہاں بھی آم کے بے شمار باغات نظر آتے ہیں۔یہی حال کم و بیش صوبہ بلوچستان کا ہے اور اس سے آگے اگر آپ پاک و ہند کی سرحد پار کر جائیں تو مشرق میں بنگال کے ساحل بلکہ آسام تک آم کے باغات کا سلسلہ دکھائی دے گا اور جنوب کا رُخ کیجیے تو یہاں بھی ان کی بہتات نظر آئے گی۔
برصغیر کے دیہی علاقوں میں آم کی آمد کمی خوراک کے شکار کروڑوں انسانوں کے لئے غذائیت اور صحت کا پیغام لاتی ہے۔ان علاقوں میں اسے سادہ چاول اور روکھی روٹی کے ساتھ کھا کر پیٹ بھرے جاتے ہیں۔تھوڑے دودھ کے اضافے سے تیار کردہ آم کا رس امیر و غریب دونوں کے لئے غذائیت اور توانائی بخش ثابت ہوتا ہے،اسی لئے یہ اگر ہماری تہذیب میں پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے تو ہندو تہذیب میں اسے دیوتاؤں کی غذا کہتے ہیں۔

شمالی ہند کے صوبہ بہار میں ایک نہر بزاری باغ کہلاتا ہے۔روایت ہے کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں یہاں آم کے ایک ہزار درخت لگائے گئے تھے۔اسی طرح اورنگ زیب عالم گیر کے دور میں اورنگ آباد شہر کے گرد و نواح میں بھی اس کے باغات لگائے گئے تھے،جو آج بھی موجود ہیں وہاں یہ بالعموم امرائی کہلاتے ہیں۔
قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں آم کے باغات کم تھے،خاص طور پر سندھ میں عمدہ قسم کے آم نہ ہونے کے برابر تھے،البتہ میرپور خاص میں اس کا اہتمام کچھ زیادہ تھا۔
یہاں خاص طور پر صوبہ مدراس (جنوبی ہند) کا بڑا رس والا آم خوب کاشت ہو کر مقبول ہوا،جو سندھ کی مناسبت سے سندھڑی کہلایا۔جنوب ہی کی ایک قسم بینگن پلی بھی خوب پھلی پھولی۔روایت ہے کہ دربھنگہ میں عہد اکبری کے لگائے ہوئے درخت آج بھی پھل دے رہے ہیں۔تین سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ان کے رنگ،خوشبو اور ذائقے میں کوئی فرق نہیں آیا۔
مولانا سلیمان ندوی کا خط
پاکستان میں قیام کے لئے کراچی میں آنے کے بعد پہلی گرمیوں کی آمد پر ممتاز عالم دین اور عظیم سیرت نگار مولانا سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ نے اپنے ایک ہندوستانی دوست کے نام خط میں لکھا کہ ”یہاں کی گرمیوں میں آم کی کمی محسوس ہوتی ہے،جب کہ آج کل وہاں ہندوستان میں اس کا موسم ہو گا“ لیکن آگے چل کر مولانا نے لکھا کہ ”آم پاکستان میں بھی خوب پیدا ہونے لگے گا،کیونکہ بقول ان کے مسلمان جہاں جاتا ہے اپنی تہذیب ساتھ لے جاتا ہے۔
“پاکستان آج بجا طور پر آم کو قومی پھل قرار دیتا ہے۔اسے مشیت اور بزرگوں کی دعاؤں کا پھل بھی سمجھنا چاہیے۔دنیا کے اور ممالک بھی آم کو اپنا قومی پھل قرار دیتے ہیں،لیکن دنیا بھر کے صاحب ذوق حضرات کا متفقہ فیصلہ ہے کہ پاکستانی آم اپنی خوشبو،رنگ اور ذائقے کے اعتبار سے بے مثال ہوتے ہیں۔بیرون ملک مقیم پاکستانی ہی نہیں،دیگر ملکوں کے افراد بھی پاکستانی آم،خاص طور پر چونسا اور ثمر بہشت کی آمد کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔

آم سب کا من پسند
کیا بچے کیا بوڑھے،آم سب کا من پسند پھل ہے۔بچوں میں اس کے کثرت استعمال سے خون میں حدت بڑھنے سے پھوڑے پھنسیاں نکل آتی ہیں،جس کی کوئی پروا نہیں کی جاتی،یہی حال کم و بیش بوڑھوں کا ہوتا ہے۔ماضی میں ان کے بہ کثرت آم خوری کے قصے آج تک سنائی دیتے ہیں،بلکہ آج بھی آم خوری میں ہمارے بزرگوں کا حصہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔
پرہیز کے باوجود وہ اسے کھانے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔اردو کے مقبول شاعر اسد اللہ خاں غالب بھی آم کے رسیا تھے۔شاہی باغ میں بادشاہ ظفر کے ساتھ آم کے پیڑوں کو بغور دیکھنے پر جب بادشاہ نے پوچھا:”مرزا!درختوں پر کیا غور سے دیکھ رہے ہو؟“تو انھوں نے جواب دیا:”میں دیکھ رہا ہوں کہ ان آموں میں سے کتنوں پر میرا نام لکھا ہے“۔غالب ہی کا قول ہے کہ ”آم میٹھے ہوں اور خوب ہوں۔
“شاعر مشرق علامہ اقبال بھی آم کے رسیا تھے۔پرہیز کی وجہ سے وہ آم زیادہ نہیں کھا سکتے تھے۔معالجین نے انھیں صرف ایک آم روزانہ کھانے کی اجازت دی تھی۔وہ روزانہ سب سے بڑا آم اپنے لئے منتخب کرتے تھے۔اردو کے ایک اور ممتاز شاعر اکبر الہ آبادی ان کے لئے الہ آباد کا مشہور آم لنگڑا ہر سال بھیجا کرتے تھے۔گویا آم کی اپنی تہذیبی اہمیت یہ بھی تھی کہ اسے دلوں میں قربت بڑھانے کا وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔پاکستانی سربراہان مملکت بیرونی ملکوں کے سربراہوں کو آم بھیجتے ہیں اور اگر وہاں کا سفر کریں تو اپنے ساتھ لے بھی جاتے ہیں۔یہ کہنا بجا ہو گا کہ آم کا ذائقہ اب دوسرے ملکوں کے عوام و خواص کا بھی پسندیدہ بن گیا ہے۔پکنگ اور تفریحات کے دیگر مواقع پر آم خوب کھائے جاتے ہیں۔ماضی کی طرح آج بھی آم کی دعوتیں ہوتی ہیں۔اللہ غریق رحمت کرے شہید حکیم محمد سعید بھی ایک عرصے تک ہر سال ایسی دعوت کا اہتمام کرتے رہے۔

دو اقسام کے آم
آم کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ایک تخمی اور دوسری قلمی۔ہندوستان کی طرح پاکستان کے بھی اکثر علاقوں میں نصف صدی پہلے تخمی آم زیادہ ہوتا تھا،جو زیادہ ترش ہونے کے علاوہ رس کے اعتبار سے قلمی آم کے مقابلے میں کم درجے کا ہوتا تھا۔آم کی یہ قسم اچار،امچور اور دیگر مقاصد کے لئے آج بھی استعمال کی جاتی ہے،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کاشت کا رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
یہ دیسی آم بھی کہلاتا ہے،جو سائز میں چھوٹا ہوتا ہے۔اس میں گودا کم اور ریشہ زیادہ ہوتا ہے۔آم کی ایک قسم موسم کے شروع میں آتی ہے،دوسری قسم درمیان میں اور تیسری آخر میں آتی ہے۔آم کا درخت 3 سے 4 برسوں میں پھل دینے کے قابل ہوتا ہے اور یہ درخت پر کافی وقت میں پکتا ہے۔اسے ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رکھا جا سکتا۔ہاں اس کا رس فریز کرکے کچھ دنوں تک کھایا جا سکتا ہے،لیکن موسمی آم کے ذائقے کی بات اس میں نہیں ہوتی۔

آم دوسرے ملکوں میں
خوراک کے عالمی ادارے کے مطابق آم کی پیداوار کے لحاظ سے 2007ء میں پاکستان پانچواں ملک تھا،جب کہ سرِفہرست ہندوستان اور چین تھے۔میکسیکو کا نمبر تیسرا،تھائی لینڈ کا چوتھا اور برازیل کا ساتواں تھا۔
پنجاب سرفہرست
پاکستان میں سب سے زیادہ آم صوبہ پنجاب میں پیدا ہوتا ہے،اس کے بعد سندھ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوتا ہے۔
پاکستان کی مشہور اقسام میں ثمر بہشت،چونسا اور انور رٹول شامل ہیں،جن کا زیر کاشت رقبہ پنجاب میں زیادہ ہے۔اس کے علاوہ الفانسو،بینگن پلی،دسہری،فجری اور لنگڑا قابل ذکر ہیں۔2008ء اور 2009ء میں پاکستان میں 1727932 ٹن آم پیدا ہوا۔اس میں سے 73437152 کلو گرام برآمد کیا گیا۔زیادہ تر برآمدات افغانستان،بحرین،بیلجیئم،کینیڈا،ڈنمارک،فرانس،جرمنی،یونان،ایران،اٹلی،کویت،نیدر لینڈ،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کی گئیں۔
ان کے علاوہ 40 دیگر ممالک بھی پاکستانی آم منگواتے ہیں،جن کی قیمت بھی کم اور معیار بلند ہوتا ہے۔
غذائیت سے بھرپور
غذائیت کے اعتبار سے آم توانائی بخش ہوتا ہے۔اس میں شامل نشاستے،غذائی ریشہ،چکنائی،پروٹین،حیاتین الف،بیٹاکیروٹین،تھایامن،رائبوفلیون،نایاسن،حیاتین ب 6،فولیٹ،حیاتین ج،کیلسیئم،فولاد،میگنیزیئم،فاسفورس،پوٹاشیم اور جست (زنک) اسے ایک نہایت متوازن اور غذائیت بخش پھل بنا دیتے ہیں۔
آم کھانے کے بعد ایک پیالی دودھ کا پینا اسے مکمل غذا بنا دیتا ہے۔آم کے چھلکوں میں مانع تکسید خاصیت ہوتی ہے۔
دوائی فائدے
کچے اور پکے آم کئی دوائی اور علاجی مقاصد کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔جھلسا دینے والی گرمی میں لُو لگنے کی شکایت کے لئے کچے آم کا شربت اکسیر ثابت ہوتا ہے۔طب مشرق میں اس کے پتے اسہال (ڈائریا) اور ذیابیطس کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔
کیری اسقربوط،یعنی جسم میں حیاتین ج کی کمی دور کرتی ہے اور پکا پھل پیشاب کی کمی دور کرتا ہے۔ان کے علاوہ آم مقویِ باہ،مانع قبض اور دُبلا پن دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔آم خواتین کی کئی شکایات دور کرنے کے لئے بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔شہید حکیم سعید ایک ماہر طبیب اور جڑی بوٹیوں کے ممتاز معالج کی حیثیت سے آم کھانے کے بعد جامن کھانے کا مشورہ دیتے تھے۔
ان کے مطابق جامن کھانے سے آم آسانی سے ہضم ہو جاتے ہیں۔دیسی آم قلمی آم کے مقابلے میں اس میں موجود ریشے کی وجہ سے آسانی سے ہضم ہوتے ہیں۔آم،اس کے پتے اور چھال کے علاوہ اس کی لکڑی بھی مختلف مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔سچ پوچھیے تو آج کل آپ کے گھر میں موجود بادشاہ سلامت ان تمام ملکوں کے لئے خدا داد نعمت ہیں کہ جہاں یہ پیدا ہوتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کی شدید کمی کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں لوگ آم کی کثرت کی وجہ سے انھیں کھا نہیں پاتے تھے اور زیادہ تر آم خراب ہو جاتے تھے۔ان آموں کو محفوظ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ آم کا رس صاف کپڑے پر پھیلا کر خشک کر لیا جاتا۔یہ آم کا پاپڑ کہلاتا تھا،جسے حسب منشا دودھ وغیرہ میں بھگو کر ذائقے دار مٹھائی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا،لیکن آج ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولتوں نے اسے زرمبادلہ کمانے کا اچھا ذریعہ بنا دیتا ہے۔
یہی نہیں اس سے تیار کردہ شربت وغیرہ بھی برآمد کیے جاتے ہیں۔یہ نعمت پاکستان کے محنتی کسانوں نے خون پسینہ ایک کرکے حاصل کی ہے،آم کے درخت ہر وقت پانی اور ان پر حملہ آور امراض اور کیڑے مکوڑوں سے تحفظ مانگتے ہیں۔امراض سے تحفظ کے علاوہ آم کے درخت کو کھاد اور پانی کی بروقت فراہمی بھی بے حد ضروری ہے۔اس نعمت کی قدر کے ساتھ ساتھ اس کے زیر کاشت رقبے میں اضافہ،ان کی نئی بہتر اقسام کی تیاری اور برآمدات بڑھانے سے ملک کی معاشی حالت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔آم کا موسم ہے،مل کر ہنس بول کر اس کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے باہمی میل ملاپ کی چاشنی بڑھائیے۔

Browse More Ghiza Aur Sehat