Moringa Ghaza Bhi Dawa Bhi - Article No. 1676

Moringa Ghaza Bhi Dawa Bhi

سوہانجنا۔غذا بھی ،دوا بھی - تحریر نمبر 1676

سوہانجناپھلی1990ء کی دہائی میں امریکی سائنس دانوں کی تحقیقات کا مرکز بنی اور پھر دنیا میں اس کے فوائد کے چرچے ہونے لگے۔

منگل 17 ستمبر 2019

حافظ مسعود احمد
سوہانجناپھلی1990ء کی دہائی میں امریکی سائنس دانوں کی تحقیقات کا مرکز بنی اور پھر دنیا میں اس کے فوائد کے چرچے ہونے لگے۔اگر چہ اس سے قبل ہمارے ماہرین بھی اس کے فوائد بیان کرتے رہے،مگر کسی نے دھیان نہیں دیا،تاہم 2008ء میں زرعی یونی ورسٹی،فیصل آباد کے پروفیسر ڈاکٹر شہزاد بسرانے یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کے دوران سوہانجنا کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اب اُن کا شمار دنیا کے دس بڑے ماہرین سوہانجنا میں کیا جاتاہے۔


سوہانجنا ایک ایسا پودا ہے،جس کے پتوں میں لحمیات (پروٹینز)دہی سے2گنا،پوٹاشیئم کیلے سے 3گنا،کیلسیئم دودھ سے 4گنا،حیاتین الف(وٹامن اے)گاجر سے 4گنا ،حیاتین ج (وٹامن سی)سنترے سے 7گنا،فولاد پالک سے 9گنا اور بادام سے 3گنا زیادہ پائے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

امریکی سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق سوہا نجنا پھلی300سے زیادہ بیماریوں کے علاج میں فائدہ مند ہے،جن میں سے چند یہ ہیں:ذیابیطس،امراض قلب،ہائی بلڈپریشر ،خون کی کمی،جوڑوں کا درد وورم اور اضمحلال و افسردگی(ڈپریشن)وغیرہ۔


سوہانجنا پھلی غذائیت سے بھر پور ایک بہترین غذا ہی نہیں،بلکہ نباتاتی ادویہ میں بھی سر فہرست ہے۔لحمیات کی اکائیوں کو امینو ایسڈز(AMINO ACIDS)کہا جاتاہے۔امینو ایسڈز کی اب تک20قسمیں دریافت ہو چکی ہیں۔یہ ایسڈز ہمیں دہی،دودھ ،پنیر،انڈے اور گوشت سے حاصل ہوتے ہیں۔انھی ایسڈز کی زیادہ تر قسمیں سوہانجنا میں ہوتی ہیں۔سوہا نجنا دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے ایک بہترین ٹانک ہے،کثیر الحیاتین(ملٹی وٹامنز)کے مہنگے سے مہنگے کیپسول بھی اس کی افادیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
سرطان سے بچاؤ کے لیے سوہانجنا پھلی کا کھانا گویا ایک تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔وہ افراد جو دائمی نزلے میں مبتلا رہتے ہیں،اگر وہ سوہانجنا پھلی کھائیں تو مرض سے مکمل طور پر نجات مل سکتی ہے۔
پوٹاشیئم دماغ اور اعصابی نظام کو طاقت ور بناتا ہے۔نیز دماغ کے خلیوں(سیلز)کی عمر، دماغی صلاحیتوں اور ذہانت میں بھی اضافہ کرتاہے اور چو نکہ سوہانجنا میں پوٹاشیئم زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے ،اس لیے کم زور دماغ واعصاب والے افراد خاص طور پر اسے ضرور کھائیں۔

ماہرین صحت نے گاجر کو حیاتین الف کا ماخذ قرار دیا ہے،لیکن سوہانجنا میں گاجر کی نسبت کہیں زیادہ مقدار میں حیاتین الف پائی جاتی ہے،جو آنکھوں ،جلد ،دل اور معدے کے امراض سے محفوظ رکھتی ہے۔دودھ کو کیلسیئم کا ذخیرہ سمجھا جاتاہے۔کیلسیئم ہڈیوں کو مضبوط کرتاہے۔سوہانجنا میں کیلسیئم دودھ سے 4گنا زیادہ ہوتاہے۔فولاد خون کے سرخ خلیے بنانے میں مدد کرتا ہے،جب کہ سوہانجنا پھلی میں پالک سے بہت زیادہ مقدار میں فولاد پایا جاتاہے۔

اچھی صحت کے لیے جن حیاتین کا کھانا ضروری قرار دیا گیا ہے،اُن میں حیاتین الف،حیاتین ب ا،ب2،ب3،ب6اور حیاتین ج،جب کہ معدنیات (منرلز)میں کیلسیئم،پوٹاشیئم ،کرومیئم ،تانبا ،فولاد ،فاسفورس اور جست شامل ہیں۔سوہانجنا پھلی میں یہ تمام صحت بخش اجزاء وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
سوہانجنا پودے کے خشک پتوں کا سفوف 5گرام اور تازہ پتوں کا سفوف20گرام سے لے کر 80گرام تک کھایا جا سکتا ہے۔
عام طور پر اس کے کھانے سے ابتدا میں کثرت سے پیشاب آتا ہے،جو پریشانی والی بات نہیں،اس لیے کہ جسم سے فاسد مادے خارج ہو رہے ہوتے ہیں۔بعد ازاں یہ شکایت ختم ہو جاتی ہے۔یہ سفوف سالن میں بھی ڈالا جاتاہے۔اسے آٹے میں ملا کر ،گوندھ کر روٹی بنا کر بھی کھایا جا سکتا ہے۔سفوف کو سالن کے اوپر میتھی کی طرح چھڑ ک کر یا ایک گلاس پانی میں آدھا یا ایک چمچہ ملا کر بھی پی سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں اس کا سفوف خالی کیپسول میں بھر کر پانی کے ساتھ کھایا جا سکتا ہے۔یہ ہر عمر کے افراد کے لیے مفید ہے۔
سوہانجنا کو قلم یا بیج کے ذریعے بہ آسانی اُگایا جا سکتا ہے۔فروری سے لے کر ستمبر تک کے مہینے اس کی کاشت کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔اس کا پودا تیزی سے نشوونما پا کر 8ماہ میں مکمل درخت بن جاتاہے۔زمین میں اس کے بیج بوتے وقت دو باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے:پہلی تو یہ کہ بیج زمین میں ایک انچ سے زیادہ گہرے نہ دبائیں،دوسری پانی بالکل نہ دیں۔
پانی بیج اُگنے کے ایک ہفتے بعد دیا جائے۔
چونکہ یہ بنیادی طور پر گرم علاقے کا پودا ہے،اس لیے گرمیوں میں بارش کے دنوں میں تیزی سے بڑھتا ہے اور پانی کی مناسب فراہمی،تیز روشنی اور زیادہ درجہ حرارت اس پودے کی افزائش کی بنیادی ضروریات ہیں۔

Browse More Ghiza Aur Sehat