Namyati Ghiza Ziyada Faida Mand - Article No. 2467

Namyati Ghiza Ziyada Faida Mand

نامیاتی غذا زیادہ فائدہ مند - تحریر نمبر 2467

نامیاتی (Organic) اشیائے خورونوش وہ ہوتی ہیں،جن میں بیج اُگانے سے لے کر دسترخوان پر آنے تک کسی قسم کی کیمیائی کھاد،کیڑے مار ادویہ یا جراثیم کش محلول وغیرہ کا استعمال نہ کیا گیا

جمعرات 16 جون 2022

رؤف ظفر/ملک نجم الدین مزاری
نامیاتی (Organic) اشیائے خورونوش وہ ہوتی ہیں،جن میں بیج اُگانے سے لے کر دسترخوان پر آنے تک کسی قسم کی کیمیائی کھاد،کیڑے مار ادویہ یا جراثیم کش محلول وغیرہ کا استعمال نہ کیا گیا ہو اور وہ خالصتاً فطری ماحول میں پروان چڑھی ہوں۔دنیا فصلوں اور پھلوں پر زہریلی ادویہ کے چھڑکاؤ اور نت نئی کھادوں سے تنگ آ چکی ہے۔
یہ آلودہ غذا انسان کے جسم اور اعصابی نظام پر زہریلے اثرات مرتب کر رہی ہے۔
پاکستان،بلکہ دنیا بھر میں گندم سمیت مختلف اجناس،سبزیوں اور پھلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے جنون میں جو کھادیں اور کیڑے مار ادویہ استعمال کی جاتی ہیں،انھوں نے لوگوں کو ذیابیطس،سرطان،امراضِ قلب اور دیگر کئی قسم کے امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔

(جاری ہے)


ایسی اجناس اور اسپرے شدہ پھل و سبزیاں کھا کر آپ نہ تو فوراً بیمار پڑتے ہیں اور نہ پیٹ خراب ہوتا ہے۔

یہ ایک قسم کا دیر اثر زہر (سلو پوائزنگ) ہے،جو جسم پر رفتہ رفتہ اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نامیاتی غذا مہنگی ہوتی ہے،اس لئے عام فرد کے لئے اسے خریدنا مشکل ہو گا،لہٰذا اس کو دولت مند افراد ہی خرید سکتے ہیں۔ان لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہر برس ہم چائے پر 600 ملین ڈالرز،ادویہ کی درآمد (امپورٹ ) پر 4 ارب ڈالرز اور چہرے کے سامانِ آرائش (Cosmetics) کے سامان پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔
اگر یہی روپے صاف ستھری اور خالص غذا پر خرچ کیے جائیں تو نہ صرف صحت کی دنیا میں انقلاب آ سکتا ہے،بلکہ گھریلو بجٹ بھی کم ہو سکتا ہے۔
ماضی میں ہمارے بزرگ دیہات اور چھوٹے شہروں میں بھی خالص دیسی گھی،گندم،دیسی مرغی،گھر میں پیسے گئے مسالے،مٹی کے برتن،خالص دودھ،دیسی انڈے،گڑ،گھروں میں اُگائی گئی سبزیاں اور کھانا پکانے کے لئے سرسوں کا تیل استعمال کرتے تھے۔
اُس زمانے میں فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لئے کیمیائی کھاد اور جراثیم کش ادویہ استعمال نہیں کی جاتی تھیں،لہٰذا خالص غذا کے کھانے سے لوگ ذیابیطس،ہائی بلڈ پریشر اور دل و معدے کے امراض سے محفوظ رہتے تھے،لیکن آج کل ہر فرد کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے۔اُس زمانے کے لوگ محنت مشقت کے بھی عادی تھے۔
اگر ہم میدے کی بنی ہوئی ڈبل روٹی کی جگہ خالص گندم کی آدھی روٹی کھائیں اور بناسپتی گھی کم مقدار میں کھائیں،کولا مشروبات کی جگہ لیموں پانی یا تخم بالنگا کا مشروب پئیں تو صحت پر اچھے اثرات پڑیں گے۔
امریکا جیسے ملک میں 1960ء کی دہائی کے بعد نامیاتی غذائیں کھانے کا رجحان شروع ہوا۔
پاکستان کے دیہات میں تو شروع ہی سے خالص اشیاء ہی کھائی جاتی تھیں اور اب بھی کھائی جاتی ہیں،لیکن بڑے شہروں میں نامیاتی غذائیں کھانے کا رجحان دس پندرہ برس پہلے شروع ہوا،جو رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔
نامیاتی غذائیں کھاتے پیتے گھرانوں میں کھائی جاتی رہی ہیں،لیکن اب متوسط طبقہ بھی امراض سے تنگ آ کر ان قدرتی غذاؤں کی طرف راغب ہو رہا ہے۔
نامیاتی غذاؤں کے اسٹوروں میں خالص اور بغیر کسی کیمیائی ملاوٹ کے مرچ مسالے،ہلدی،اچار،آٹا،دیسی گھی،تیل،شکر،گڑ،جو کا دلیا اور درجنوں قسم کی سبزیاں اور جڑی بوٹیاں دستیاب ہیں۔یقینا ان کی قیمتیں زیادہ ہیں،لیکن جوں جوں ان غذاؤں کی مانگ بڑھ رہی ہے،مقابلے اور مسابقت کے ساتھ قیمتوں میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔اس حوالے سے ہماری غذا کی صنعت (فوڈ انڈسٹری) میں بھی ایک انقلاب برپا ہو رہا ہے،جب کہ پڑھے لکھے کاشت کاروں میں بھی ایسی فصلیں اُگانے کا شعور بھی اُجاگر ہو رہا ہے،جہاں وہ روایتی فصلوں کے بجائے کم سے کم رقبہ زیر کاشت لا کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکتے ہیں۔
بیشتر ملکوں میں لوگ امراض سے بچنے اور مدافعتی قوت میں اضافے کے لئے نامیاتی غذائیں،جڑی بوٹیاں اور مسالے کھا رہے ہیں۔ہربل میڈیسن،یعنی جڑی بوٹیوں سے علاج کا رجحان جنون کی حد تک بڑھ رہا ہے۔
جڑی بوٹیاں اور مسالے طب یونانی اور ہومیو پیتھی طریقِ علاج کا لازمی جزو ہیں۔ہمارے حکما صدیوں سے انھی جڑی بوٹیوں سے ہر قسم کے امراض کا علاج کر رہے ہیں۔
اب لوگ ان جڑی بوٹیوں کو ضمیموں کے طور پر بھی کھانے لگے ہیں۔نامیاتی غذاؤں کا بیشتر حصہ انھی جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔کیمیائی طور پر تیار کی گئی حیاتین (وٹامنز) کے مقابلے میں دیسی جڑی بوٹیاں زیادہ مفید ثابت ہوتی ہیں۔
پاکستان کے شمالی علاقے،مثلاً اسکردو،گلگت،سوات،چترال اور کوئٹہ کے بعض علاقے نایاب اور قیمتی جڑی بوٹیوں سے مالامال ہیں اور مقامی لوگ انھیں فروخت کرکے روزی کما رہے ہیں۔

پاکستان اس وقت جڑی بوٹیوں کی برآمد سے تقریباً ایک کروڑ ڈالر کما رہا ہے،لیکن یہ بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے،حالانکہ دونوں ممالک کی آب و ہوا میں کوئی فرق نہیں،بلکہ ہماری جڑی بوٹیاں زیادہ معیاری ہیں،لیکن انھیں غلط طریقوں سے اکٹھا کرنے اور ترسیل کے مسائل کی وجہ سے اُن کا معیار متاثر ہوتا ہے۔
شمالی علاقوں میں ایک اندازے کے مطابق 6 ہزار سے زیادہ اقسام کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں،جو طب یونانی،ہومیو پیتھی اور ایلو پیتھی میں استعمال کی جاتی ہیں۔
5 ہزار سے زیادہ پائے جانے والے پھول دار پودے ان کے علاوہ ہیں۔
بے شمار مسالے اور جڑی بوٹیاں ہماری روزمرہ کی غذاؤں کا حصہ بن چکے ہیں،مثلاً اسپغول،آملہ 16 سے زیادہ اقسام کی چائے،زیتون،ادرک،نیم،دار چینی،لونگ،سہانجنا،میتھی دانہ،گلی بابونہ(کیمومیلا)،تخم بالنگا،تلسی،جیا کے بیج اور عرق گلاب وغیرہ۔ہمارے ہاں سہانجنا بہ طور سبزی کھائی جا رہی ہے،جسے امریکا کے خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے کئی امراض کا علاج قرار دیا ہے۔
امریکا اس کی برآمد (ایکسپورٹ) سے 5 ارب ڈالر کماتا ہے۔
تلسی کا پودا اپنے فوائد کی وجہ سے بعض ممالک میں انتہائی مقدس تصور کیا جاتا ہے۔نیند اور اعصابی سکون کے لئے گل بابونہ کھایا جاتا ہے۔بعض درختوں،کیکر اور نیم وغیرہ کی شاخیں ہمارے ہاں بہ طور مسواک اور درجنوں امراض کے علاج کے طور پر کام آتی ہیں۔

Browse More Ghiza Aur Sehat