Coffee - Mosaam E Sarma Ka Mufeed Mashroob - Article No. 1771

Coffee - Mosaam E Sarma Ka Mufeed Mashroob

کافی ۔موسم سرما کا مفید مشروب - تحریر نمبر 1771

کافی کے بارے میں ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ آج سے تقریباً ہزار برس پہلے بکریاں چرانے والے ایک یمنی کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ

جمعرات 2 جنوری 2020

کافی کے بارے میں ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ آج سے تقریباً ہزار برس پہلے بکریاں چرانے والے ایک یمنی کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس کی بکریاں جب ایک مخصوص درخت کے پتے کھالیتی ہیں تو زیادہ اُچھلنے کودنے لگتی ہیں۔یوں لگتاہے جیسے ان میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہو۔وہ بہت فعال اور پھُر تیلی ہو جاتی ہیں۔اس راز کو جاننے کے لیے یمنی چرواہے نے اس جنگلی درخت کی چند پتیاں چبالیں۔
تب اُسے اپنی بکریوں کے خوشی سے اُچھلنے کودنے کا راز معلوم ہو گیا۔اُس نے اس راز میں اپنے دوستوں کو بھی شامل کر لیا۔یوں یہ ابتدائی تجربات کافی کی پتیاں چبانے سے لے کر کافی کے بیج اُبال کر پینے تک جاری رہے۔اس طرح دنیا میں ایک ایسے مشروب کا دور شروع ہوا،جو آج کل ہر جگہ مہمان نوازی یا خاطر مدارات کے لیے زبردست اہمیت کا حامل ہے۔

(جاری ہے)


یہ بھی کہا جاتاہے کہ کافی کو بہ طور مشروب پینے کی ابتداء ایتھوپیا کے”کافا“نامی علاقے سے ہوئی۔

اس علاقے میں کافی کے درخت اب بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں،بلکہ جنگل میں خود روپودوں کی حیثیت سے اُگتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ کافی کے درخت اس علاقے میں یمن سے یہاں پہنچے ہوں۔خود کافی کا نام ہی عربی لفظ”’قہوہ“سے لیا گیا ہے،اس لیے اس بات پر یقین آجاتاہے۔دنیا کے تمام ملکوں میں استعمال ہونے والا لفظ”کافی“اس لفظ سے ماخوذ ہے۔
تاریخی ریکارڈ کے اعتبار سے کافی کی کاشت سب سے پہلے چھٹی صدی عیسوی کے دوران جنوبی عرب کے علاقے میں کی گئی تھی۔متعدد مورخین کا کہنا ہے کہ مشروب کے طور پر پینے سے بہت پہلے کافی کے بیجوں کو غذا کے طور پر کھایا جاتا تھا۔بیج پیس کر چکنائی میں ملائے جاتے اور اس طرح اس سے ایک عمدہ کھانا تیار کیا جاتا تھا۔مشہور طبیب،کیمیاداں اور فلسفی الرازی کی تحریروں سے پتا چلتاہے کہ کافی کو مشروب کے طور پر نویں صدی عیسوی میں پیا گیا۔
رازی کی تحریروں سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ عربوں نے آٹھویں اور نویں صدی کے دوران کافی کے بیج پیس کر اور انھیں اُبال کر گرم مشروب تیار کرنا سیکھ لیا تھا۔کافی کے پتوں کے بجائے اگر اس کے بیج اُبال کر پییں جائیں تو یہ ایک فرحت بخش اور متحرک مشروب ثابت ہوتاہے۔اس طرح کافی کو بہ طور مشروب پینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
عرب دنیا میں قہوہ اور کافی کا رواج بہت تیزی سے پھیل گیا،لیکن اہل یورپ کوکافی کی فرحت وفعالیت کا علم ستر ھویں صدی عیسوی میں ہوا۔
سترھویں اور اٹھارویں صدی کا زمانہ یورپ کے قہوہ خانوں(کافی ہاؤسز)کا عہد زریں تھا۔یورپ کے ہر شہر میں قہوہ خانے کھل چکے تھے۔ان میں معاشرے کے ہر طبقے کے لوگ نظر آتے تھے،تاہم یہ قہوہ خانے عام طور پر شاعروں اور ادیبوں کے اڈوں کی حیثیت رکھتے تھے ،جہاں شاعراور ادیب ایک پیالی کافی پر گھنٹوں حالات حاضرہ پر مباحثہ کرتے یا گپیں لڑاتے تھے۔
براعظم امریکا میں کافی اٹھارویں صدی میں مقبول ہوئی۔برطانوی حکومت نے برا عظم امریکا میں چائے پر ٹیکس لگا دیا تھا،جس سے امریکیوں میں سخت برہمی پائی جاتی تھی۔اس ناراضی کا اظہار1773ء میں ہو گیا تھا۔امریکیوں نے چائے کے کریٹ بوسٹن کی بندرگاہ سے سمندر میں پھینک دیے۔اس واقعے کو”بوسٹن ٹی پارٹی“کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔اسے امریکی انقلاب کے اسباب میں سے ایک سبب بھی سمجھا جاتاہے۔
اس واقعے کے بعد سے امریکیوں نے کافی کو ترجیح دینی شروع کر دی۔آج صورت حال یہ ہے کہ امریکا میں دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ کافی پی جاتی ہے۔
کافی کی پیداوار پر سینکڑوں برس تک عربوں کی اجارہ داری رہی۔سترھویں صدی کے اختتام تک ساری دنیا کے لیے کافی کے بیج اسی جزیرے نما سے فراہم کیے جاتے تھے۔کافی کی زیادہ تربرآمد (ایکسپورٹ)یمن کے شہر”موکا“سے ہوتی تھی،یہاں تک کہ کافی کا دوسرا نام ہی”موکا“پڑگیا۔
ابتدائی دور میں کافی کی تجارت پر اس غلبے کے باوجود اس کی کاشت اور برآمد میں زوال آتا گیا۔کافی اب دنیا بھر میں سب سے بہترین سمجھی جاتی ہے۔اس کے بیج بڑے تیز،چکنے ،خوشبودار اور اپنی مہک کے اعتبار سے نفیس ترین اور بے مثال ہوتے ہیں۔سترھویں صدی کے اختتام پر کچھ ولندیزی جاسوس یمن سے کافی کے چند پودے چُرا کر لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔یہ پودے انھوں نے جزیرہ جاوا (انڈونیشیا)میں لگائے۔
اس طرح جزائر شرق الہند ،یعنی انڈونیشیا میں کافی کو کامیابی سے متعارف کرایا گیا۔چند برس بعد ان جزائر میں کافی کی کاشت عرب سے بھی زیادہ ہو گئی۔ولندیزیوں نے تو اس بات کی کوشش بھی کی تھی کہ کافی کی کاشت پر صرف اُن کا ہی قبضہ رہے،لیکن فرانسیسی بحریہ کا ایک افسر انھیں بھی جُل دے گیا۔وہ کافی کا ایک چھوٹا سا پودا چوری چھپے انڈونیشیا سے چُرا کر ایک فرانسیسی نو آبادی میں پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ چھوٹا سا پودا باقی ماندہ جزائرغرب الہند(ویسٹ انڈیز)اور پھر وہاں سے براعظم امریکا میں کافی کی کاشت کی پیداوار بڑھانے کا باعث بنا،یہاں تک کہ اب ان علاقوں میں کافی سب سے اہم پیداوار ہے۔
کافی کے پودے عام طور پر نرسری میں بیجوں کے ذریعے اُگائے جاتے ہیں،جنھیں بعد میں پہلے سے بنائی ہوئی زمین میں لگا دیا جاتاہے۔یہ پودے بڑے ہوکر درخت بن جاتے ہیں۔
ان کی پتیاں بیضوی شکل کی ،چکنی اور ملائم ہوتی ہیں۔عام طور پر ٹہنی میں ایک جگہ پتیاں جوڑے کی شکل میں پھوٹتی ہیں۔ جب کافی کے پودے کی عمر تین برس ہوجاتی ہے تو ان میں چھوٹے چھوٹے خوشبودار پھول نکلتے ہیں۔ ان کے بعد چھوٹے چھوٹے گوندنی نما بیضوی پھل گچھوں کی صورت میں نکلتے ہیں۔ابتداء میں ان کا رنگ سبز ہوتاہے۔رفتہ رفتہ جب یہ پھل بڑے ہو کر پک جاتے ہیں تو ان کا رنگ پہلے سبزی مائل،اس کے بعد گہرا سرخ یا قرمزی ہو جاتاہے۔
ہر پھل میں دو بیج ہوتے ہیں۔یہی کافی کے بیج ہیں۔کافی کا درخت دس برس کی عمر میں پختہ ہوتاہے۔اس کی عمر15سے30برس تک ہوتی ہے۔درخت سے پھل توڑنے کے بعد انھیں دھوکر یا خشک کرکے ان کا گودا علاحدہ کردیا جاتاہے۔گودا الگ ہونے کے بعد بھورے رنگ کے بیج حاصل ہوتے ہیں،جنھیں یا تو دھوپ میں خشک کیا جاتاہے یا مصنوعی طریقے سے سکھایا جاتاہے۔اس کے بعد انھیں چھوٹے بڑے بیجوں کے اعتبار سے چھانٹ کر الگ کر لیا جاتاہے اور پھر کافی بنانے والوں کو فروخت کردیا جاتاہے۔

دنیا کے مختلف ملکوں میں کافی کے بیج بھوننے کی صنعت روز بروز فروغ پارہی ہے۔اس طریقہ کار سے کافی کے بیجوں میں ان کی مخصوص خوشبو اور ذائقہ پیدا ہوجاتاہے۔ان بیجوں کو اس طرح بھونا جاتا ہے کہ ان کا رنگ بہت زیادہ گہرا ہو کر سیاہی مائل نہ ہو جائے،بلکہ درمیانی حد میں رہے،اس طرح کافی کی لذت اور مہک پختہ ہو جاتی ہے۔زیادہ بھوننے سے کافی میں تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔
کافی کی مختلف اقسام کو آپس میں ملایا جاتاہے،تاکہ مطلوبہ خوشبو اور مہک پیدا ہو جائے۔کافی کے بیجوں کو پیسنے کے بعد جلد از جلد استعمال کرلینا چاہیے یا سر بند ڈبوں میں رکھنا چاہیے،تاکہ کافی خراب نہ ہو جائے۔
دنیا بھر کے جتنے ملکوں میں کافی درآمد (امپورٹ)کی جاتی ہے،اس کی مجموعی مقدار کا نصف حصہ امریکا درآمد کرتاہے۔امریکا اور کینیڈا دونوں جگہ کافی کو قومی مشروب کی حیثیت حاصل ہے۔
امریکااور کینیڈا میں کیفین سے پاک اور فلٹر کی ہوئی کافی کا رواج عام ہے۔اسے گرم گرم بھی پیا جاتاہے اور اس میں برف کے ٹکڑے ڈال کر ٹھنڈے مشروب کے طور پر بھی پیا جاتاہے۔کافی صرف دنیا کا ایک پسندیدہ مشروب ہی نہیں،بلکہ اسے مختلف غذاؤں اور کھانے پینے کی اشیاء میں ذائقہ اور مہک پیدا کرنے کے لیے بھی شامل کیا جاتاہے۔اسی چاکلیٹ،آئس کریم اور کیک وغیرہ میں کافی کی خاص مہک،خوشبوو ذائقہ پیداکرنے کے لیے بھی شامل کرتے ہیں۔
کافی کو عام طور پر کریم شامل کرکے پیا جاتاہے۔اگر اس میں عام دودھ کی جگہ”کنڈینسڈ ملک“(CONDENSED MILK) شامل کر لیا جائے تو کافی کی لذت و ذائقہ بڑھ جاتاہے۔اس کے علاوہ کافی کے بیجوں سے حاصل کردہ تیل کرم کش ادویہ بنانے،لکڑی پر پالش کرنے والا روغن بنانے،دوائیں ،پینٹ، جوتے کی پالش اور صابن سازی میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔کافی میں چونکہ مانع تکسید اجزاء(ANTIOXIDANTS)ہوتے ہیں،اس لیے اس کے پینے سے صحت پر مفید اثرات پڑتے ہیں۔
یہ نہ صرف رعشے کے مرض سے بچاتی ہے،بلکہ دماغ کو بھی فعال ومتحرک رکھتی ہے۔روزانہ کافی پینے سے وزن کم ہونے لگتاہے۔یہ ہضم وجذب کی کارکردگی بہتر کرتی ہے۔کافی اضمحلال وپژمردگی کی کیفیت سے بھی نجات دلانے میں مدد کرتی ہے۔ کافی سردیوں کا مفید مشروب ہے،اس لیے اس موسم میں کافی سے ضرور فائدہ اٹھائیں،لیکن اسے اعتدال سے ہی نوش کرنا چاہیے۔

Browse More Healthart