
Depression Insaani Khushiyoon Ki Qatal - Article No. 714
”ڈپریشن“ انسانی خوشیوں کا قاتل - تحریر نمبر 714
اتوار 3 مئی 2015

ربیعہ شاہد:
ڈپریشن میں مبتلا افراد کے دماغ میں کسی بھی افسوسناک واقعے یا کسی چیز کا ڈرخوف مستقل سوار رہتا ہے۔ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ دکھ اور سکھ ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں اگر دکھ نہ ہوں تو خوشی کی پہچان کرنا بھی ممکن نہ ہو۔ صحت مند ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہم حقائق کو قبول کرتے ہوئے کسی بھی تلخ یا افسوسناک واقعے کو بھلا کے خوشیوں کی تلاش کا سفر جاری رکھتے ہیں لیکن ڈپریشن کے دوران ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس مرض کے مریض پر دکھ اور پریشانیاں مستقل طور پر مسلط ہو جاتی ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک عام مرض نہیں بلکہ ذیابیطس کی طرح ایک حیاتیاتی بیماری ہے۔البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ اس مرض کی علامات نفسیاتی ہیں۔ دراصل اس کی وجہ انسانی ذہن میں ہونے والی حیاتیاتی کیمیائی تبدیلیاں ہیں جو اسے زندگی سے مایوس اور بیزار بنا دیتی ہیں۔
ایک عام مشاہدے کے مطابق معاشرے کا ہر طبقہ اس مرض کی یکساں زد میں ہے۔انتہائی امیر اور انتہائی غریب بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ 90 فیصد لوگ محض یہ سوچ کر علاج نہیں کرواتے کہ لوگ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ انہیں کوئی دماغی مسئلہ ہے یا وہ ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔صرف دس فیصدافراد ایسے ہیں جو اسے نہ صرف ایک مرض سمجھتے ہیں بلکہ اپنا علاج کروانا بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ہمارے ہاں مردوں میں کم اور عورتوں میں ڈپریشن کا مرض بہت زیادہ ہے۔چار خواتین میں سے ایک خاتون اور سات مردوں میں سے ایک مرد اس مرض کا شکار ضرور ہوتا ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں ایسی خواتین جن کے شوہروں کی آمدنی کم ہوتی ہے یا جن کے معاشی حالات انتہائی خراب ہوتے ہیں انہیں ڈپریشن کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ لیکن ڈاکٹرز کی رائے میں یہ خیال درست نہیں کیونکہ اپر کلاس کی بہت سی خواتین جنہیں کسی قسم کی مالی پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوتا لیکن وہ کم آمدنی رکھنے والی خواتین کے مقابلے میں زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ ڈپریشن کے مریضوں کوپْرامید زندگی کی طرف واپس لانا اتنا آسان نہیں۔طبی لحاظ سے دیگر امراض کی طرح ڈپریشن کی بھی تشخیص و تحقیق بروقت ہونی چاہیے۔اسی طرح جیسے دیگر امراض کے شکار افراد کو علاج‘توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی ڈپریشن میں مبتلا افراد بھی اس کا حق رکھتے ہیں۔
ڈپریشن مرض کے حوالے سے دنیا بھر کے مقابلے میں شائد ہمار اواحد ملک ہے جہاں ڈپریشن کو پاگل پن کی بیماری تصور کیا جاتا ہے اور سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا تو قطعی ممنوع ہے۔لوگ اس معاملے میں خاموش رہنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جبکہ ڈپریشن کا مریض گھر والوں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتاوہ اپنے اندر کی خاموش اور تکلیف دہ آوازیں خود ہی سنتا رہتا ہے۔خاص طور پر خواتین اپنے مرض کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں شوہر سمیت گھر کے دیگر افراد بھی انہیں بیمار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔چنانچہ ان حالات میں مریضہ کو کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور بعض جگہ ایسی کوششوں کی مزاحمت بھی کی جاتی ہے۔نتیجے میں خواتین اپنے مرض کو جاننے سے قاصر رہتی ہیں اور بیماری کی بروقت تشخیص نہ ہونے کے باعث مرض بڑھتا رہتا ہے۔اکثردیکھا گیا ہے کہ خواتین نیند کی گولیوں سے اپنا علاج خود کرنے لگ جاتی ہیں۔ہمارے ہاں ایک اور خوفناک پہلو یہ ہے کہ آپ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ہی کوئی بھی دوا میڈیکل سٹور سے لے سکتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق ڈپریشن کے دوران جسم کا مدافعتی نظام بھی شدید دباوٴ کا شکار ہو جاتا ہے۔اس کیفیت میں مریض کے دل کی دھڑکن غیر معمولی تیز ہو جاتی ہے‘بلڈ پریشر ‘انسولین اور کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے۔یہاں تک کہ خون کے کلوٹ (blood clotting)بھی تیزی سے بننے لگتے ہیں۔جس کے نتیجے میں لوگوں کو امراض قلب کے علاوہ اور بھی کئی مہلک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈپریشن کے اسباب مختلف لوگوں میں مختلف ہوتے ہیں۔اس کی کئی شکلیں اور کئی درجے ہوتے ہیں لیکن تین قسم کے درجے ہمارے ہاں زیادہ عام ہیں۔طبی ڈپریشن یا میجر ڈپریشن ‘ڈس تھیمیا اور مینک ڈپریشن۔ میجر ڈپریشن کے شکار مریضوں کی سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور ان کے علاج کے لیے بھی خاصہ وقت لگتا ہے۔ تاہم یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ تمام ڈپریشن قابل علاج ہیں۔لیکن یہ بہت ہی اچھی بات ہو گی کہ بروقت ہی ڈاکٹر سے علاج کروا لیا جائے۔ماہرین کے خیال میں مردوں کی نسبت عورتوں میں ڈپریشن زیادہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عورتیں بہت حد تک سماجی تعاون سے محروم رہتی ہیں جبکہ مردوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔وہ اپنی کاروباری پریشانیاں ‘گھریلو پریشانیاں یہاں تک کہ ازدواجی معاملات پر بھی کھل کر بات کر لیتے ہیں۔جبکہ خواتین گھروں میں تنہائی کا شکار رہتی ہیں۔
ڈپریشن میں مبتلا افراد کے دماغ میں کسی بھی افسوسناک واقعے یا کسی چیز کا ڈرخوف مستقل سوار رہتا ہے۔ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ دکھ اور سکھ ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں اگر دکھ نہ ہوں تو خوشی کی پہچان کرنا بھی ممکن نہ ہو۔ صحت مند ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہم حقائق کو قبول کرتے ہوئے کسی بھی تلخ یا افسوسناک واقعے کو بھلا کے خوشیوں کی تلاش کا سفر جاری رکھتے ہیں لیکن ڈپریشن کے دوران ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس مرض کے مریض پر دکھ اور پریشانیاں مستقل طور پر مسلط ہو جاتی ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک عام مرض نہیں بلکہ ذیابیطس کی طرح ایک حیاتیاتی بیماری ہے۔البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ اس مرض کی علامات نفسیاتی ہیں۔ دراصل اس کی وجہ انسانی ذہن میں ہونے والی حیاتیاتی کیمیائی تبدیلیاں ہیں جو اسے زندگی سے مایوس اور بیزار بنا دیتی ہیں۔
(جاری ہے)
ایک عام مشاہدے کے مطابق معاشرے کا ہر طبقہ اس مرض کی یکساں زد میں ہے۔انتہائی امیر اور انتہائی غریب بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ 90 فیصد لوگ محض یہ سوچ کر علاج نہیں کرواتے کہ لوگ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ انہیں کوئی دماغی مسئلہ ہے یا وہ ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔صرف دس فیصدافراد ایسے ہیں جو اسے نہ صرف ایک مرض سمجھتے ہیں بلکہ اپنا علاج کروانا بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ہمارے ہاں مردوں میں کم اور عورتوں میں ڈپریشن کا مرض بہت زیادہ ہے۔چار خواتین میں سے ایک خاتون اور سات مردوں میں سے ایک مرد اس مرض کا شکار ضرور ہوتا ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں ایسی خواتین جن کے شوہروں کی آمدنی کم ہوتی ہے یا جن کے معاشی حالات انتہائی خراب ہوتے ہیں انہیں ڈپریشن کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ لیکن ڈاکٹرز کی رائے میں یہ خیال درست نہیں کیونکہ اپر کلاس کی بہت سی خواتین جنہیں کسی قسم کی مالی پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوتا لیکن وہ کم آمدنی رکھنے والی خواتین کے مقابلے میں زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ ڈپریشن کے مریضوں کوپْرامید زندگی کی طرف واپس لانا اتنا آسان نہیں۔طبی لحاظ سے دیگر امراض کی طرح ڈپریشن کی بھی تشخیص و تحقیق بروقت ہونی چاہیے۔اسی طرح جیسے دیگر امراض کے شکار افراد کو علاج‘توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی ڈپریشن میں مبتلا افراد بھی اس کا حق رکھتے ہیں۔
ڈپریشن مرض کے حوالے سے دنیا بھر کے مقابلے میں شائد ہمار اواحد ملک ہے جہاں ڈپریشن کو پاگل پن کی بیماری تصور کیا جاتا ہے اور سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا تو قطعی ممنوع ہے۔لوگ اس معاملے میں خاموش رہنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جبکہ ڈپریشن کا مریض گھر والوں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتاوہ اپنے اندر کی خاموش اور تکلیف دہ آوازیں خود ہی سنتا رہتا ہے۔خاص طور پر خواتین اپنے مرض کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں شوہر سمیت گھر کے دیگر افراد بھی انہیں بیمار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔چنانچہ ان حالات میں مریضہ کو کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور بعض جگہ ایسی کوششوں کی مزاحمت بھی کی جاتی ہے۔نتیجے میں خواتین اپنے مرض کو جاننے سے قاصر رہتی ہیں اور بیماری کی بروقت تشخیص نہ ہونے کے باعث مرض بڑھتا رہتا ہے۔اکثردیکھا گیا ہے کہ خواتین نیند کی گولیوں سے اپنا علاج خود کرنے لگ جاتی ہیں۔ہمارے ہاں ایک اور خوفناک پہلو یہ ہے کہ آپ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ہی کوئی بھی دوا میڈیکل سٹور سے لے سکتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق ڈپریشن کے دوران جسم کا مدافعتی نظام بھی شدید دباوٴ کا شکار ہو جاتا ہے۔اس کیفیت میں مریض کے دل کی دھڑکن غیر معمولی تیز ہو جاتی ہے‘بلڈ پریشر ‘انسولین اور کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے۔یہاں تک کہ خون کے کلوٹ (blood clotting)بھی تیزی سے بننے لگتے ہیں۔جس کے نتیجے میں لوگوں کو امراض قلب کے علاوہ اور بھی کئی مہلک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈپریشن کے اسباب مختلف لوگوں میں مختلف ہوتے ہیں۔اس کی کئی شکلیں اور کئی درجے ہوتے ہیں لیکن تین قسم کے درجے ہمارے ہاں زیادہ عام ہیں۔طبی ڈپریشن یا میجر ڈپریشن ‘ڈس تھیمیا اور مینک ڈپریشن۔ میجر ڈپریشن کے شکار مریضوں کی سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور ان کے علاج کے لیے بھی خاصہ وقت لگتا ہے۔ تاہم یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ تمام ڈپریشن قابل علاج ہیں۔لیکن یہ بہت ہی اچھی بات ہو گی کہ بروقت ہی ڈاکٹر سے علاج کروا لیا جائے۔ماہرین کے خیال میں مردوں کی نسبت عورتوں میں ڈپریشن زیادہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عورتیں بہت حد تک سماجی تعاون سے محروم رہتی ہیں جبکہ مردوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔وہ اپنی کاروباری پریشانیاں ‘گھریلو پریشانیاں یہاں تک کہ ازدواجی معاملات پر بھی کھل کر بات کر لیتے ہیں۔جبکہ خواتین گھروں میں تنہائی کا شکار رہتی ہیں۔
تاریخ اشاعت:
2015-05-03
Your Thoughts and Comments
مزید مضامین سے متعلق
-
خارش ۔ ایک جلدی مرض
-
تمباکو نوشی ایک عالمی مسئلہ
-
صحت کی ایک بڑی دشمن بیٹھنے کی بیماری
-
گرمیوں میں صحت کا خیال رکھیے
-
موسمِ بہار میں پولن الرجی
Articles and Information
غذا اور صحتغذا کے ذریعے بیماریوں کا علاجمضامینورزشناشتہ کے فوائدذیابیطس ۔ شوگرڈینگی بخار اور ڈینگی وائرسبواسیر اور اسکا علاجآنکھوں کے مسائل اور علاجچہرے اور جلد کے مسائلبلڈ پریشرموٹاپا کم کرنے کے آسان طریقےکمر درد کے مسائلجوڑوں کے درد کے مسائلڈپریشن اور ذہنی مسائل اور انکا علاجفالج کا علاجگردوں کے مسائلدانتوں کے مسائلناک کان گلے کے مسائلکھانسی اور گلے کے مسائلڈائٹنگ کے طریقےکینسر بانجھ پنکولیسٹرول ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2022 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2021 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2022, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.